سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) تقلید کی حرمت کی دلیل

  • 21797
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1166

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تقلید کے حرمت کی دلیل کیا ہے؟(فتاویٰ المدینہ:34)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تقلید کے حرمت کی دلیل مجھے معلوم نہیں ہے۔بلکہ جس کے پاس علم نہیں ہے،اس کا  تقلید کے بغیر چارہ نہیں ہے۔[1]

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٤٣﴾... سورةالنحل

’’اہل علم سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے۔‘‘

تو اس آیت کی بناء پر مسلمانوں کی دو قسمیں بنتی ہیں۔ایک عالم کہ جس پر واجب ہے کہ سوال کرنے والے کو جواب دے۔دوسرا غیر عالم کہ اس پر واجب ہے کہ عالم سے سوال کرے۔اگر ایک عام شخص آکر عالم سے سوال کرے اور دو عالم اسکو جواب دے تو یقیناً یہ شخص اس آیت کے حکم میں داخل ہیں۔شاید کہ سائل کا مقصود کچھ اور ہے کہ جو سوال میں مذکور نہیں ہے۔وہ یہ ہے کہ مذاہب میں سے کسی ایک مذہب پر سختی سے عمل پیرا ہونا،پھر دوسرے مذاہب اور دیگر آئمہ کے اقوال کی طرف دیکھے بغیر یہ ہے کہ ایک مسلک کو دین سمجھ لینا یہ جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ کتاب وسنت کے دلائل کے خلاف ہے کیونکہ اہل لوگوں کی تین قسمیں بناتے ہیں۔(1)۔مجتہد۔(2)۔دلیل کی بنیاد پر اتباع کرنے والا۔(3)۔مقلد۔

یہ عام لوگوں کی حالت ہے۔اس لیے ہم یہ نہیں کہتے کہ تقلید حرام ہے لیکن جب تقلید کو ہی دین سمجھ لیا جائے پھر یہ حرام ہے۔

مطلق طور پرتقلید کو حرام کہنا جائز نہیں ہے۔


[1] ۔شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  یہاں پر عام آدمی کےلیے تقلید ثابت کررہے ہیں اور اس کا اقرار کررہے ہیں جبکہ عام آدمی کے لیے بھی تقلید جائز نہیں کیونکہ تقلید کی جو  تفریق کتب کے اندر ملتی ہے وہ یہ ہے کہ قائل کی بات کو بلادلیل مان لینا تقلید کہلاتاہے۔اب جب ایک آدمی کسی عالم سے سوال کرتاہے تو وہ عالم کے جواب کو عین قرآن وسنت سمجھ کر عمل کرتا ہے اور ا پنی سوچ کے مطابق وہ اللہ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے مطابق عمل کررہا ہوتا ہے اور اس کا ایسا کرنا اسے مقلد نہیں بناتا۔اب یہ بات تو عالم پر ہے کہ وہ اسے کسی دلیل یا کسی  تقلید سے مسئلہ بتاتا ہے۔عام آدمی اس سے بری الذمہ ہے کیونکہ وہ اپنی سوچ کے مطابق عین قرآن وسنت پر عمل کررہا ہوتاہے۔واللہ اعلم(راشد)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

علم استدلال نقلیہ اور اصول فقہ کے مسائل صفحہ:124

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ