السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل کے مخالف ہوتوان میں سے کون سا لیا جائے گا؟(فتاویٰ الامارات:169)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل کے مخالف ہوتو قول کو فعل پر مقدم کیا جائے گا۔قول کو فعل پر مقدم کرنے کا سبب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمان امت کے لیے شریعت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اگرچہ حقیقت میں تو یہ بھی عام شریعت ہے،لیکن بسا اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حکم خاص ہوتا ہے جبکہ عام لوگوں کے فعل کا حکم اس کے برخلاف ہوتا ہے۔کبھی کبھی ایسے بھی ہوتاہے کہ امت کے لیے حکم ایک ہوتاہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل کسی حاجت کی وجہ سے اس کے برخلاف صادر ہوتا ہے ۔اس صورت میں اصل تواعتبار آپ کے قول کاہوگا'اس میں تعارض نہیں سمجھا جائے گا۔
مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
"إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ , فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا , وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا , وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا : رَبَّنَا ولَكَ الْحَمْدُ , وَإِذَا صَلَّى جَالِساً فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعُونَ"
امام اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے۔۔۔ایک اور روایت میں ہے۔۔۔کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھا کرو۔
ایک اورحدیث میں ہےکہ:
"وَإِذَا صَلَّى جَالِساً فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعُونَ"
اس حدیث میں ہے کہ جو کسی عذر کی وجہ سے بیٹھے ہوئے امام کے پیچھے نماز پڑھے تو وہ متقدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھے۔اس کی امام کی متابعت کرتے ہوئے۔جبکہ اس کے معارض وہ دوسری حدیث ہے کہ جس میں آپ نے اپنی بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ پیچھے کھڑے ہوئےتھے۔ اس لیے بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ فعلی حدیث پہلے والی قوی حدیث کے لیے ناسخ ہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ شرعی دلیل ہونے کے لحاظ سے فعل میں اتنی قوت نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری شدہ فرمان کو منسوخ کیا جاسکے۔بلکہ قول وفعل میں تطبیق ضروری ہے۔تطبیق کی صورت یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو فعل پر مقدم کیا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کے لیے جب ایک فرمان جاری ہوجائے تو وہ فرمان صرف اس کے برخلاف فعل کی وجہ سے منسوخ نہیں ہوسکتا۔
بعض سابقہ آئمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ میں اور "فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعُونَ"کے درمیان حدیث کو ایک قاعدہ کے مطابق بیان کیا اور فعل حدیث کو ایک واقعہ کے ساتھ محدود کردیا۔اور دوسری صورتیں اس کے ساتھ نہیں ملائیں۔
فرماتے ہیں کہ جب امام بیٹھ کر نماز کی ابتداکرے تومتقدیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ بیٹھ کرنماز پڑھیں لیکن جب امام کھڑا ہوکرنماز پڑھائے شروع سے،پھر کسی سبب سے اس کو بیٹھنا پڑے تو مقتدی اس کے پیچھے اپنی نماز جاری رکھیں۔یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی سمجھ کی باریکی ہے۔کیونکہ یہ واقعہ ایسے ہی ہوا۔بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا وکیل بنایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں جیسا کہ فرمایا "مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحکم دو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھائی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف جھانک کردیکھا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیٹھ کر امامت کروائی۔اس طرح ان کی نماز پوری ہوگئی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی وجہ سے۔
یہ جائز نہیں کہ یہ کہا جائے یہ فعلی حدیث نے قولی حدیث کو منسوخ کردیا۔کیونکہ قولی حدیث چھوڑنے کےبجائے جمع کی صورت ممکن ہے۔ایک جواب یہ بھی دیاجاتا ہے کہ فعلی حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ قولی حدیث پر عمل واجب نہیں ہے بلکہ اس قولی حدیث کو استحباب پرمحمول کریں گے۔تو لہذا حدیث اپنی جگہ پر محکم وثابت رہے گی۔منسوخ نہیں ہوگی۔یہ سابقہ جمع کی شکل اس وقت تو سمجھ آتی ہے کہ جب فعلی حدیث متاخر ہوتی تو قولی حدیث سے لیکن قولی حدیث سےمتاخر ہونامعلمو نہیں ہے۔بہرحال جس بات پر ہمارا دل مطمئن ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ امام کے ساتھ مقتدیوں کے بیٹھنے کے لیے جوامر کا صیغہ آیا ہے یہ تو وجوب کےلیے ہے۔باقی رہی فعلی حدیث اس کے بارے میں ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ قولی حدیث کے بعد کی ہے۔
مصنف عبدالرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ایک تابعی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ کر نماز پڑھانے کےواقعہ کے بارے میں اس طرح حدیث آئی ہے۔
"وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى....."
جب امام نماز پڑھائے تو تم کھڑے ہوکر پڑھاکرو۔یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے ۔لیکن اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث میں جو چیز مذکورہے وہ یہی ہے کہ اس معاملہ کو اپنی اصل پر باقی چھوڑنے کے بارے میں ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی بھی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوکہ یہ فعلی حدیث قولی حدیث سے منافر ہے۔قولی حدیث کے منسوخ نہ ہونے کی تائید میں شیخ الاسلام حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک مسلم کی حدیث ذکر کی ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے:
"عَنْ جَابِرٍ قَالَ اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ تَكْبِيرَهُ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا فَرَآنَا قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْنَا فَقَعَدْنَا فَصَلَّيْنَا بِصَلَاتِهِ قُعُودًا فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا"
’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو ایک دن ظہر کی نماز بیٹھ کر پڑھائی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے گر گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو یا کلائی میں چوٹ لگنے کیوجہ سے کھڑے ہوکر نہیں پڑھا سکتے تھے۔تو جب بیٹھ کر پڑھائی لوگ اپنی عادت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے ان کو بیٹھنے کاکہا۔جب سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا:قریب تھا کہ تم بھی وہی کام کرتے کہ جو فارس والے کرتے ہیں کہ وہ اپنے بادشاہوں کے سروں کے پاس کھڑے ہوجاتے ہیں ،بلکہ امام تو اس لیے بنایاگیا تاکہ تم اسکی اقتداء کرو۔
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں شرعی علت ہے۔مقتدیوں کے نماز میں بیٹھنے کا امام کے پیچھے نماز کا۔
اسکے باوجود کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نماز میں کھڑے ہونے اور اہل فارس کا اپنے بڑوں کے لیے ہونا اس میں بہت بڑا فرق ہے۔لیکن اس کےباجود اس طرح کی بن جانے والی اتفاقی صورت کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا کہ کہیں ہم کفار کی مشابہت اختیار نہ کریں۔شیخ الاسلام حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حکم کی یہ ایک مضبوط علت ہے۔منسوخ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو حکم اتنا محکم ہواس کااتنی جلدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کی وجہ سے منسوخ ہونا درست نہیں۔ خصوصاً جب یہ بھی معلوم نہیں کہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ہے یہ قولی حدیث کے بعد کا ہے یاپہلے کا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب