سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) مسلمانوں کی مختلف جماعتیں

  • 21788
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 827

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان  مختلف جماعتوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ہمارا کیا کردار ہے مسلمانوں کی وحدت میں؟کیا ضروری نہیں ہے کہ ہم مسلمانوں کو کسی ایک جماعت میں ملالیں؟(فتاویٰ :الامارات 114)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارا کردار مسلمانوں کے متحد ہونے میں ضروری ہے،لیکن پریشانی یہ ہے کہ جس سے سب مسلمان غافل ہیں کہ کس بنیاد پر مسلمان متحد ہوسکتے ہیں؟کیا اسی پرانی بنیاد پر کہ ہر چیز کو اپنی جگہ باقی رکھا جائے ،یا اس اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بنیاد پر:

﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ... ﴿٥٩﴾... سورةالنساء

’’اگر تمہارا کسی چیز میں تنازعہ ہوجائے تو تم اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ پر اورآخرت کے دن پر۔‘‘

جس نے مسلمانوں کو متحدہونے کی دعوت دی لیکن اس اتحاد کی بنیاد پر قرآن کے علاوہ کسی اور چیز کو معیار بناتاہے۔وہ کبھی بھی اس چیز میں کامیاب نہیں ہوگا۔اگرچہ اسے عمر نوح عطا کردی جائے۔

اگر آپ مسلمانوں کو متحد کرنے کاارادہ رکھتے ہیں تو مسلمانوں میں سے بھی آج جوکتاب اللہ کی وجہ سے کافر بن جاتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن میں نقص ہے۔بسا اوقات وہ نماز بھی پڑھتے ہیں'روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوٰۃ بھی اداکرتے ہیں۔آپ سے مسلمان کے ساتھ کس طرح متحد ہوسکتے ہیں کہ جو عقیدہ کی بنیاد ہی میں آپ کی مخالفت کررہاہو۔اس لیے جو شخص بھی مسلمانوں کے اتحاد کی حرص رکھتا ہو  تواس پر واجب ہے کہ اس اصول کو مد نظر رکھے:

فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَافْتَرَقَتْ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ قَالَ الْجَمَاعَةُ...........وفي رواية هي التي علي ...مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"

’’یہودیوں کے اکہتر(71) فرقے ہوئے اور نصاریٰ کے بہتر(72) فرقے ہوئے۔عنقریب میری امت کے تہتر(73) فرقے ہوں گے۔سارے کے سارے آگ میں جائیں گے۔ایک کے علاوہ۔انہوں نے کہا وہ کونسی جماعت ہے'اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:وہ جماعت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ راستہ کہ جس پر میں ہوں اور میرے  صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ہیں۔مسلمانوں کے وحدت کاایک طریقہ ہے کہ جب وہ اپنا منہج بھی ایک کرلیں۔الحمدللہ مسلمانوں کا اصل منہج بھی ایک ہی قال اللہ وقال الرسول ہے۔‘‘

فرقہ ناجیہ کسی ایک گروہ میں بند نہیں ہے۔نہ ہی کسی ایک جماعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ان جماعتوں اور گروہوں میں سے جس جس فرد پر وہ علامت ونشانی جو آپ نے بتائی صادق آئے گی ہر وہ شخص فرقہ ناجیہ میں شمار ہوگا۔

کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ فرقہ ناجیہ والے اہل حدیث ہیں یا اہل السنہ ہیں یاسلفی المنہج والعقیدہ ہیں تو کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں سچا ہو؟

تو یہاں مسئلہ دعویٰ کرنے کا نہیں ہے کہ کسی معین فرقہ کی طرف منسوب کرنا یا کسی مخصوص جماعت کا دعویٰ کرنا بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہر مسلمان شخص کو اس علامت کا خیال رکھنا چاہیے۔جس علامت کو فرقہ ناجیہ کی علامت قراردیاہے۔علامت یہ ہے کہ وہ راستہ کہ جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  ہیں۔باقی جماعتوں کے نام رکھنا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کوئی بھی شخص اپنی جماعت کا کوئی بھی نام رکھ لےی کہ جب ان کے باہم آپس میں اختلاف نہ ہو۔جیسے کہا جاتا ہے کہ"ہرقوم کے لیے ہے کہ وہ جیسی چاہیں اصطلاحیں وضع کریں لیکن اس نام کے پیچھے ایسی کوئی چیز مرتب ہو کہ جو شریعت کے خلاف ہو اور قوم پرستی کی بنیاد پہ اپنے آپ کو کسی معین  گروہ کی طرف منسوب کرتاہے اور یہ نام انتشار کا سبب بن رہے ہوں،تویہ چیز جائز نہیں ہے۔

بلکہ اللہ تعالیٰ کےاس قول کےعموم میں داخل ہوگا۔

﴿وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ريحُكُم ...﴿٤٦﴾... سورةالانفال

’’آپس میں جھگڑو مت'پس تم بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوااکھڑ جائے گی۔‘‘

ہم صاف فرقہ واریت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس فرقہ واریت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

﴿كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِحونَ ﴿٥٣﴾... سورة المؤمنون

’’ہر جماعت کہ جوان کے پاس ہے اس پر وہ خوش ہیں۔‘‘

اسلام میں کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔اسلام میں ایک ہی جماعت ہے۔قرآن کے نص سے:

﴿أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٢٢﴾... سورةالمجادلة

’’خبر دار بے شک اللہ تعالیٰ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔‘‘

اللہ کی جماعت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جماعت ہے۔ہر شخص کو چاہیے کہ وہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے منہج پر چلے تو اس لیے اسے چاہیے کہ کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کرے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

ایمان کے مسائل کا بیان وعده "وعید" تارک الصلاۃ کاحکم صفحہ:112

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ