السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاحجت قائم ہونے کے لیے صرف دعوت کاپہنچنا ضروری ہے یاسمجھنا بی اس کا ضروری ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس دعوت کو سمجھنا ضروری ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم ... ﴿٤﴾... سورةابراهيم
’’اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اسی قوم کی زبان والا بھیجا تاکہ ان کے لیے وہ آسمانی احکامات واضح طور پر بیان کردے۔‘‘
لیکن یہاں سوال کرنے سے مقصود یہ ہے کہ بعض دفعہ دعوت تو پہنچتی ہے لیکن بعض لوگ سمجھ نہیں پاتے تو کیا وہ معذورشمار ہوں گے؟
اس سوال کو یوں ہی سمجھ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عرب کی طرف رسول بناکر بھیجا،ان کی اپنی زبان عربی ہے تو کیایہ ممکن ہے کہ کسی عربی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سمجھ میں نہ آئی ہو اور ہم کہیں کہ یہ معذور ہے!یہ ممکن نہیں ہے ۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بھیجے ہوئے پیغمبر نے۔
کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی کہ ہر قوم میں حجت اس قوم کی زبان میں ہم نے قائم کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قطعی دلیل پرمحمول ہے کہ ہر انسان اسے سمجھ سکتا ہے۔
ہم فرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے علماء میں سے ایک عالم شخص یورپ والوں کے پاس جاکر ان کو ان کی ہی زبان میں اچھی طرح سے دعوت سمجھاتا ہے اور ان پر حجت قائم کرتاہے'اس دین کی ایمان اور عقیدے کے حوالہ سے۔کیا یہ جواب بدل جاتا ہے؟میں کہتا ہوں کہ بے شک یہ ممکن ہے کہ یہ عالم دین اپنے بیان میں کوئی کمی بیشی کرے۔لیکن واجب ہے کہ ہم تصور کریں کہ ہم میں سے ہر فرداللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا دعویٰ کرے'پورے مکمل بیان کے ساتھ۔پھرایمان نہ لائے تو وہ کافر ہے۔اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کایہ اصول ہے:
﴿وَما كُنّا مُعَذِّبينَ حَتّىٰ نَبعَثَ رَسولًا ﴿١٥﴾... سورة الإسراء
’’کہ ہم اس وقت عذاب نہیں دیتے کہ جب تک ہم ان میں اپنا رسول نہ بھیج دیں۔‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب