سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) نماز میں سستی کرنا

  • 21783
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 926

سوال

(18) نماز میں سستی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

" أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الصَّلَاةُ ، فَإِنْ صَلَحَتْ صَلَحَ سَائِرُ عَمَلِهِ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِهِ"

’’کہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب کیاجائےگا۔اگرنماز درست ہوئی تو اس کے سب عمل درست ہوں گے اور اگر نماز ناقص ہوئی تو اس کے تمام اعمال ناقص شمار ہوں گے۔تو کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے سستی کی وجہ سے نماز نہ پڑھی اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیاہے؟(فتاویٰ المدینہ)‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں اس حدیث سے یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کفر خارج عن الملۃ ہے۔کیونکہ  قرآن وحدیث میں جہاں جہاں کفر کا ذکر آیا،اس سے مراد مرتد کرنے والا کفر نہیں ہے بلکہ کفر کی قسمیں ہیں۔ایک کفر اعتقادی دوسرا کفر عملی ہے،اور اس کفر کی تقسیم ممکن ہے،کفر قلبی اور کفر لفظی میں۔

کچھ ایسی صریح احادیث ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ سستی کی وجہ سے نماز چھوڑنے والاہے کہ جب نماز کے مشرو ع ہونے کا'اعتقاد ر کھتا ہو اور اپنی کوتاہی کا بھی اعتراف کرتا ہو نماز چھوڑنے کی۔شیطان کا یا انہی خواہش کا پیروکار ہونے کی وجہ سے یاانہی کسی اور مصروفیت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے لیکن نماز کی مشروعیت کا انکار نہیں کرتا اور دل کے ساتھ ایمان بھی رکھتا ہے لیکن وہ اپنے ایمان کے مطابق عمل نہیں کرتا۔

اس لحاظ سے جس نے نماز چھوڑی گویا کہ کفر والوں کے کام میں شرکت کی،اس عمل میں ۔اس لیے ہم کہتے ہیں یہ کہ اس کا عمل کفر والا عمل ہے۔یہ صرف اس کی بات نہیں ہے بلکہ بہت سارے اس طرح کے عمل میں مثلا ًزناحرام ہے۔لیکن کوئی اگر کرے تو وہ اس عمل سے کافر نہیں ہوگا'چوری حرام ہے لیکن چور کافرنہیں۔لیکن بسا اوقات ہمیں کچھ نوجوانوں سے یہ بات سننے میں آتی ہے کہ جو  خود دنیا میں بُری طرح گھسے ہوئے ہوتے ہیں کہ جی نماز کادور چلا گیا۔بالکل اس طرح کا آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔

دراصل قاعدہ یہ ہےکہ ہم پر واجب ہے کہ ہم اس بات کا عقیدہ رکھیں کہ اسلام کا تعلق عقائد واعمال دونوں کےساتھ ہے اور عقیدہ اصل چیز ہے عمل اس کا پیروکار ہے۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ سستی سے نماز کو چھوڑنے والا اس کے باوجود کہ نماز کے وجوب کاعقیدہ  رکھتا ہو تو اس کا یہ کفر عملی ہے۔اس سے مراد نہیں کہ یہ بندہ مرتد ہوگیا اور یہ مسئلہ علماء کے درمیان اختلافی ہے۔

ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ تارک الصلاۃ کو جیل میں ڈالا جائے گا یہاں تک کہ  توبہ کرلے یا وہیں مرجائے۔امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ تارک الصلاۃ کو نماز کاحکم دیاجائے گا اگر توبہ کرلے اور نماز پڑھے،وگرنہ اسے قتل کردیاجائے۔حد کی وجہ سے کفر کی وجہ سے نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے شخص کو جب لایاجائے گا تو اس پر تلوار سونت لی جائےگی اور کہا جائے گا نماز پڑھ وگرنہ ہم تجھے قتل کردیں گے۔اگرتو اس نے قتل کو توبہ پر ترجیح دی تواس شخص کو کبھی بھی مسلمان تصور نہیں کیا جائے گا۔بلکہ وہ اعتقادی طور پر ہی کافر شمار ہوگا۔وگرنہ وہ کیسے توبہ پر قتل ہونے کو ترجیح دے سکتا ہے۔سوال میں جو حدیث مذکور ہے اس کی نسبت سے آپ یہ سمجھ لیں کہ تارک الصلاۃ کے دوسرے اعمال قبول نہیں ہوتے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

ایمان کے مسائل کا بیان وعده "وعید" تارک الصلاۃ کاحکم صفحہ:94

محدث فتویٰ

تبصرے