السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ نے’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ میں لکھا ہے کہ جو شخص پانچوں نمازیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پڑھتا ہے ا س کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔کبائر سمیت۔جبکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض سے نقل کیاہے کہ جماعت اہل السنہ کا موقف یہ ہے کہ کبیرہ گناہ توبہ یا اللہ کی رحمت کے ساتھ معاف ہوتے ہیں۔اس کے بغیر نہیں۔وضاحت فرمائیں۔(فتاویٰ المدینہ:35)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور توبہ یہ بھی گناہوں کو مٹانے والے اسباب میں سے ہیں کہ جن کا ذکر حدیث میں آیاہے۔باقی جو قول امام قاضی عیاض سے منقول ہے اس کی نسبت اہل السنہ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔قاضی عیاض کے اس قول کو کیسے قبول کیا جائے گا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
"مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ"
’’جس نے حج کیا اور فسق وفجور نہیں کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح بری ہوجاتا ہے جس طرح اسی دن اسے اس کی ماں نے جنم دیا ہو‘‘
تو اس حدیث کا کیامطلب ہے؟کہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں اور کبیرہ گناہ باقی رہ جاتے ہیں؟یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ کبیرہ گناہ توبہ اور اللہ کی رحمت کے علاوہ معاف نہیں ہوسکتا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"مَثَلُ الصَّلَواتِ الخَمْسِ كَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلَى بَابِ أحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ... فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا "
’’کہ پانچ نمازیں پڑھنے کی مثال اس ہنر کی طرح ہے کہ جو تم میں سے کسی کے گھر کے آگے سے گزررہی ہو اور وہ اس میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیااس کے جسم پر اس کے میل میں سے کچھ رہے گا؟تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچوں نمازوں کی مثال بھی اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کے ذریعہ سے انسان کے گناہوں کو مٹادیتاہے۔
تو کیامطلب ہے کہ یہ کہاجائے کہ چھوٹے چھوٹے میل کے ٹکڑے گر جاتے ہیں اور بڑے بڑے ٹکڑے رہ جاتے ہیں؟باقی یہ بات کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جب تک کبائر کاارتکاب نہ کرے۔یہ قیدکسی زمانے میں تھی پھر یہ چیز اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور فضل کے ساتھ اٹھالی۔[1]
[1] ۔اس بارے میں میرے علم کے مطابق بھی شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف درست ہے۔کہ کبائر گناہ بغیر توبہ کے بھی معاف ہوسکتے ہیں۔شرح العقیدہ طحاویہ میں اس کے بارے میں بڑی تفصیلی بحث موجود ہے اور وہاں صاحب العقیدہ نے دس ایسے اعمال تفصیلاً بیان کیے ہیں جن سے کبیرہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔(راشد)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب