السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث قدسی ہے:’’جو کام میں کرتا ہوں،مجھے اس میں تردد نہیں ہوتا۔‘‘اس حدیث میں’’تردد‘‘ کا کیا مطلب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں،اور میرا بندہ میری اس پر فرض کردہ چیزوں کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہے اور میرا بندہ مسلسل نوافل کے ذریعے میرے اتنا قریب ہوجاتاہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں،جس سے وہ سنتا ہے،اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتاہوں ،جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی ٹانگ بن جاتا ہوں،جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے ۔توضرور اسے عطا کرتا ہوں اوراگر مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو ضرور اسے پناہ دیتا ہوں اور کسی کام کوکرتے ہوئے مجھے تردد نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث میں مذکورہ’’تردد‘‘ کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے درست جواب دیا ہے۔جسے امام صاحب کی عزت اور اہمیت کے پیش نظر اختصار کے ساتھ نقل کردیتا ہوں۔شیخ الاسلام نے ( مجموعہ الفتاویٰ 18/129۔131)میں فرمایا:
یہ حدیث شریف اولیاء کی صفت میں اہم حدیث ہے۔
اور ایک گروہ نے اس کا رد کرتے ہوئے کہا:
’’اللہ تعالیٰ کو تردد کے ساتھ موصوف نہیں کیا جاسکتا،اس لیے کہ تردد کا شکار وہ شخص ہوتا ہے جو معاملات کے انجام سے بے خبر ہوتا ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ تو تمام معاملات کے انجام وحال سے باخبر ہے اور ان میں سے کچھ بسااوقات یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ"بے شک اللہ تعالیٰ تردد کا معاملہ بھی کرتا ہے۔‘‘
تحقیق اس بات کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام حق ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی امت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی خیر خواہ اور فصیح وعمدہ کلام کرنے والا ہے۔جب حقیقت یہ ہے تو خود کو ہوشیار سمجھنے اورڈینگیں مارنے،اس حدیث کا انکار کرنے والا سب سے بڑا گمراہ،جاہل اور بے ادب ہے۔بلکہ ایسے شخص پر تادیب وتعزیر واجب ہے۔ایسے باطل گمان اور فاسد عقائد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو محفوظ رکھنا فرض ہے۔
لیکن ہم میں سے جو متردد ہے،وہ اگر معاملات کے انجام سے لا علمی کی وجہ سے تردد کا شکار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو ان صفات،معاملات کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا،جس سےہم میں سے کسی کو منصف کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی چیز نہیں ہے۔
پھر علی الاطلاق تردد کو شک کے معنی میں لینا بھی باطل ہے ۔اس لیے کہ کہ کبھی کوئی انجام ونتائج سے لا علمی کی وجہ سے تردد کرتا ہے تو کبھی دو کاموں کے فوائد اور مفاسد کی وجہ سے تردد کرتا ہے۔تاکہ وہ فائدے والے کام کا ارادہ کرے اور نقصان کی وجہ سے اس کام کو ناپسند کرتا ہے ۔تاکہ اس چیز کے انجام سے بے خبری کی وجہ سے،جیسے ایک طرف سے پسند اور دوسری جانب سے ناپسند کیا جاتاہے۔۔۔!!اور اس کی مثال مریض کا ناپسندیدہ دوا کا ارادہ کرنا بھی ہے۔(یعنی وہ دوا کو ناپسند کرتا ہے،لیکن صحت کے لیے اسے پسند بھی کرتاہے) بلکہ بندہ جن اعمال صالحہ کا ارادہ کرتا ہے،تو اسے دل ناپسند کرتا ہے اور حدیث مذکور میں"تردد" بھی اسی سے تعلق رکھتا ہے۔اور "صحیح بخاری"میں حدیث ہے کہ:
"حُجِبت النَّارُ بِالشَّهَواتِ، وحُجِبت الجَنَّةُ بالمكَارِهِ"
’’جہنم کو پسندیدہ چیزوں نے گھیرا ہوا ہے اور جنت کو ناپسندیدہ چیزوں نے گھیرا ہوا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿كُتِبَ عَلَيكُمُ القِتالُ وَهُوَ كُرهٌ لَكُم...﴿٢١٦﴾... سورةالبقرة
’’تم پر قتال فرض کیا گیا ہے،حالانکہ وہ تمھیں ناپسند ہے۔‘‘
اسی سے حدیث میں‘‘تردد" کا معنی ظاہر ہے ،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"مَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ "
’’میرا بندہ نوافل کے ذریعے مسلسل میرے قریب ہوتارہتاہے،حتیٰ کہ میں اسے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘
یہ بندہ جس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ محبوب حق بن جاتا ہے۔اس حق سے محبت کرنے والا ہوتا ہے۔
پہلے وہ اللہ کے پسندیدہ فرائض کے ذریعے اللہ کے قریب ہوتا ہے،پھر بندہ نوافل میں کوشش کرتاہے جن سے اور جن کے کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتاہے تو بندہ ہر وہ کام کرتا ہے جو اللہ کو محبوب ہوتا ہے۔
لہذا اللہ اپنے محبوب عمل کے کرنے پراس بندے سے دو وجہ سے محبت کرتاہے۔
ایک اللہ اور بندے کا اس کام کے کرنے میں ارادہ کا متفق ہونا،دوسرا بندہ کا اس چیز سے محبت کرنا جسے محبوب پسند کرے اور اس چیز کو ناپسند کرنا جسے محبوب ناپسند کرتا ہے۔
اور رب تعالیٰ اپنے بندے اور محبوب کے غمگین وپریشان ہونے کو ناپسند کرتاہے۔اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موت کو اس لیے اپنے بندے سے ناپسند کرتاہے۔تاکہ وہ اس کے محبوب کاموں سے محبت کرتا رہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی نے اس کی موت کا فیصلہ کیاہوتاہے۔
لہذا ہر وہ کام جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے وہ لازماً اللہ تعالیٰ کاارادہ ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی موت کا ارادہ کر تاہے کہ اس کا فیصلہ ہوچکا ہے جبکہ وہ اپنے بندے کو تکلیف وغم جو موت سے اسے پہنچتی ہے،دینا ناپسند کرتاہے۔اس اعتبار سے موت حق تعالیٰ کی طرف سے ارادہ ہوتی ہے جبکہ دوسرے اعتبار سے وہ موت کو ناپسند کرتاہے اور یہ ہی"تردد" کی حقیقت ہے۔
یعنی ایک اعتبارسے کسی ایک چیز کی چاہت(ارادہ) ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب سے ناپسندیدہ مکروہ،اگرچہ ان دونوں میں سے کسی کو ترجیح دینا لازمی ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ اپنے بندے کے غم وتکلیف کے باوجود،اس کے لیے موت کو ترجیح دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کااپنے محبوب مومن کے لیے موت کا ارادہ کرنا اور اس کی تکلیف کو ناپسند کرنا،اس کافر کی موت کے ارادے جیسا نہیں جس سے اللہ تعالیٰ نفرت بھی کرتا ہے اور اسے تکلیف بھی دینا چاہتا ہے۔
شیخ الاسلام نے دوسری جگہ(10/89۔57) پرفرمایا:
"پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے واضح کردیا کہ وہ تردد کرتا ہے،اس لیے کہ تردد دو ارادوں کے تعارض کا نام ہے پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندے کی پسند کو پسند کرتا ہے اور جسے بندہ ناپسند کرے وہ بھی ناپسند کرتا ہے۔جیسے بندہ موت کو ناپسند کرتاہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے موت ناپسند کرتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد فرمایا:
"وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ"
’’اورمیں اپنے بندے کی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں۔‘‘
(معلوم ہواکہ پھر بھی) اللہ تعالیٰ اس کی موت کا ارادہ کرتے ہوئے اس کی موت کا فیصلہ فرماتاہے پس اسی کا نام’’تردد‘‘ ہے۔(نظم الفرائد 1:37۔35)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب