سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(8) آپﷺ کے وضو کے پانی کو متبرک سمجھنا

  • 21773
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 795

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضو کے پانی اور دیگر چیزوں سے تبرک حاصل کرتے تھے۔تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس پر رضا مند تھے۔؟(فتاویٰ الامارات:8)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تبرک تو  صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے لے لیا یہ تو ثابت ہے ۔لیکن اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی صرف وقتی خاموشی تھی لیکن یہ عمل مسلسل تو نہیں رہا۔

اور اس وقت خاموش رہنے کی حکمت صلح حدیبیہ کے موقعہ پر واضح ہوگئی تھی کہ جب مشرکین کی طرف سے نمائندے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آنے لگے۔جب وہ نمائندے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحابہ کی محبت کو اس مبالغہ کی شکل میں دیکھتے تو وہ حیران ہوجاتے۔

جب اپنے قریشی سرداروں کی طرف واپس جاتے تو ان کو یہی پیغام دیتے کہ  محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے صلح کرلو کیونکہ ہم نے قیصر وکسریٰ کو بھی دیکھا۔لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھی جتنی ان کی تعظیم کرتے ہیں اتنی کوئی بھی رعایا اپنے بادشاہ کی تعظیم نہیں کرتی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ"

’’مجھے اتنا مت بڑھاؤ کہ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام  کی تعظیم میں غلو کیا۔میں بندہ ہی ہوں،مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘

اورایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ساتھیوں کامشاہدہ کیا کہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضو کے پانی سے تبرک حاصل کر رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تمھیں اس پر کس چیز نے ابھارا؟تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  فرمانے لگے:اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ أَنْ يُحِبَّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ , فَحَافِظُوا عَلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ , صِدْقِ الْحَدِيثِ ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ"

’’اگرتم واقعی اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم باتوں میں سچائی پیدا کرو اور امانت کو ادا کرو۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں،تبرک کے لحاظ سے جو ثابت ہے وہ واقعتاً ثابت ہے۔‘‘

صلح حدیبیہ کا یہ قصہ صحیح بخاری میں آتا ہے۔بعض لوگ بڑی جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔اگر وہ پہلے آپ علیہ السلام  کی خاموشی کی حکمت پہ غور کرلیتے پھر اس حدیث پر مطلع ہوتے تو ان کا اعتراض ختم ہوجاتا۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

عقیدہ کے مسائل صفحہ:82

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ