سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) مخلوقات میں سے سب سے پہلے کسے تخلیق کیا گیا؟

  • 21768
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3207

سوال

(3) مخلوقات میں سے سب سے پہلے کسے تخلیق کیا گیا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مخلوقات میں سے سب سے پہلے کسے تخلیق کیا گیا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إن أول شيء خلقه الله تعالى القلم وأمره أن يكتب كل شيء يكون "(الصحیحه:133)

’’یقینا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی چیز جو پیدا کی وہ قلم ہے اوراسے ہرہونے والی چیزوں کے لکھنے کا حکم دیا۔‘‘

اس حدیث میں اس نظریہ کے رد کی طرف اشارہ ہے جو اکثر لوگوں کے دلوں میں ایک پختہ عقیدہ بن گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز سب سے پہلے تخلیق کی ہے،وہ نور محمدی ہے۔حالانکہ اس کی کوئی صحیح بنیاد نہیں اور مصنف عبدالرزاق کی حدیث کی سند غیر معروف ہے۔جس کے متعلق ہم"سلسلة الاحاديث الضعيفة" میں الگ گفتگو کریں گے۔ان شاءاللہ

اس حدیث میں ان لوگوں کا بھی رد ہوتاہے جو یہ کہتے ہیں کہ عرش اول مخلوق ہے جبکہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کوئی دلیل مروی نہیں۔

یہ بات امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ(دیگراحادیث سے) استنباط اور اجتہاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔جبکہ یہ حدیث اور اس معنی کی دیگراحادیث کو لینا(اجتہاد واستنباط) سے بہتر ہے کیونکہ یہ اس مسئلہ میں نص ہے اور نص کی موجودگی میں اجتہاد نہیں ہوتا ہے جیسا کہ معلوم ہے۔

یہ تاویل کہ عرش کے بعد قلم کی تخلیق ہوئی،باطل ہے۔اس لیے کہ اس جیسی تاویل اس صورت میں درست ہے جب اس بارے میں نص قطعی ہوکہ عرش سب سے پہلی مخلوق ہے،لیکن اس جیسی نص مفقود ہے۔لہذا یہ تاویل درست وجائز نہیں۔

نیز اس حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جویہ کہتے ہیں کہ حوادث یعنی نئے نئے واقعات سے بھی پہلے کوئی چیز نہیں اور یہ ہرمخلوق سے پہلے موجود ہوتے ہیں اور اس طرح کی باتیں جن کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ کہاجائے کہ یہ اول مخلوق ہے۔

چنانچہ یہ حدیث اس قول کی بھی تردید کرتی ہے اور قلم کا اول مخلوق ہونا متعین کرتی  ہے۔لہذا اس سے پہلے قطعاً کوئی مخلوق نہیں۔(نظم الفرائد1/25۔24)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

عقیدہ کے مسائل صفحہ:78

محدث فتویٰ

تبصرے