سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) گزشتہ کئی سالوں کے روزوں کی قضائی

  • 21747
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1057

سوال

(59) گزشتہ کئی سالوں کے روزوں کی قضائی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں تئیس برس کا نوجوان ہوں اور میرے والد نے مجھے پندرہ برس کی عمر ہی میں روزے رکھنے کی ترغیب دی اور میں اس وقت کبھی روزہ رکھ لیتا اور کبھی چھوڑ دیتا کیونکہ میں روزہ کے حقیقی مفہوم سے ناآشنا تھا لیکن بالغ اور زیادہ باشعور ہونے کے بعد میں نے ہر سال رمضان المبارک کے روزے رکھنے شروع کر دئیے اور الحمدللہ کسی رمضان میں بھی کوئی روزہ میں نے نہیں چھوڑا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا گزرے ہوئے سالوں کے روزوں کی قضا میرے اوپر واجب ہے اور کتنی مدت کے روزے رکھنا میرے لئے ضروری ہے یہ خیال رہے کہ میں نے اٹھارہ برس کی عمر سے باقاعدہ روزے رکھنا شروع کئے تھے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب انسان پندرہ برس کی عمر کو پہنچتا ہے تب اس پر دینی فرائض کی ادائیگی ضروری ہو جاتی ہے اس لئے کہ اس عمر کو پہنچ جانا بالغ ہو جانے کی علامت ہے۔ پس یہ شخص جس نے بالغ ہونے کے بعد روزے رکھنے میں سستی کی ہے اس نے ایک فرض کو ترک کیا ہے۔ چنانچہ اس پر چھوٹے ہوئے ایام کی قضا واجب ہے جو اس نے ان تمام رمضان کے مہینوں کے دوران چھوڑے جو اس کی توبہ سے پہلے گزرے ہیں اور اس کا عذر اس بنا پر قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ اس شرعی حکم سے ناواقف تھا لہذا اس پر تمام چھوڑے ہوئے دنوں کی قضا کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس کو چھوڑے ہوئے روزوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو تو وہ احتیاط اور اندازے کے ساتھ روزے رکھ لے۔ یہاں تک کہ اس کو یقین ہو جائے کہ اس کے ذمے جو فرض تھا وہ ادا ہو گیا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:115

محدث فتویٰ

تبصرے