السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا غیر محرم عورت سے بات کی جا سکتی ہے، جبکہ وہ باپردہ ہو؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اگر فتنے کا ڈر نہ ہو تو بامر مجبوری پردے میں غیر محرم عورت کے ساتھ گفتگوکی جا سکتی ہے۔صحابہ کرام سیدہ عائشہ سے پردے میں مسائل پوچھ لیا کرتے تھے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس گفتگو میں کوئی غیر شرعی معاملہ نہ ہو اور نہ ہی لہجے میں نرمی ہو۔ کیونکہ نرم لہجے میں گفتگو سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اے نبیﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔ الاحزاب:32 اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : “واذا سالتموهن متاعا فاسئلوهن من وراء حجاب“اور جب تم کسی ضرورت اور حاجت کی وجہ سے عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ سنو پھر عورت کا غیر محرم مرد سے گفتگو کرنا صرف ضرورت کی حد تک جائز ہوگا اللہ تعالی نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالی نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بنابریں اس آواز کے لیے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصدا ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھاپن ہو- تاکہ کوئی بدباطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو- یہ روکھا پن ، صرف لہجے کی حد تک ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو- ان اتقیتن کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یا بات اور دیگر ہدایات قرآن و حدیث میں ہیں وہ متقی عورتوں کے لیے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہو جائے- جن کے دل خوف الہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پرواہ کرتی ہیں؟ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |