السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی ایک ملک میں مسلمان رمضان المبارک کا چاند دیکھ لیں تو کیا اس کی بنا پر دوسرے ممالک میں روزہ رکھنا مسلمانوں پر واجب ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مختلف ملکوں میں چاند کے طلوع ہونے کے اوقات میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس میں ہم شک نہیں کرتے اور اس اختلاف کی بنا پر علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ہر ملک کے لوگوں کے لئے اسی ملک میں چاند کے نظر آنے کا اعتبار کیا جائے گا جب کہ مختلف ممالک میں نظام الاوقات کا فرق ظاہر ہو۔ اس پر دلیل کے طور پر وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کریب کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ شام میں تھے تو رمضان المبارک شروع ہو گیا تو اہل شام نے جمعۃ المبارک کے دن روزہ رکھا مگر مدینہ منورہ میں ہفتہ کی رات کو ہی چاند دیکھا گیا۔ حضرت ابن عباس کو کریب نے خبر دی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور شام والوں نے جمعہ کے دن روزہ رکھا تھا تو حضرت ابن عباس نے جواب دیا کہ ہم نے تو ہفتہ کے دن روزہ رکھا ہے اور ہم اس وقت تک روزے رکھتے رہیں گے جب تک کہ شوال کا چاند نہ دیکھ لیں۔ یا پھر ہم تیس روزے پورے نہ کر لیں۔ جیسا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ جن ممالک میں چاند دیکھا گیا اور جو ممالک ان سے آگے یعنی مغرب کی جانب ہوں ان سب پر روزہ رکھنا فرض ہو گا۔ اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب کسی ایک ملک میں چاند دیکھا گیا ہو تو ضروری ہے کہ اس سے بعد والے ممالک میں بھی چاند نظر آئے گا اس لئے کہ چاند سورج کے بعد غروب ہوتا ہے اور جیسے جیسے اس میں تاخیر ہو گی چاند سورج سے دور ہوتا چلا جائے گا اور زیادہ واضح اور ظاہر ہوتا چلا جائے گا پس مثال کے طور پر اگر بحرین میں چاند دیکھا گیا تو ان ممالک کے لوگوں پر بھی روزہ رکھنا واجب ہو جائے گا جو اس کے بعد ہیں جیسے کہ نجد، حجاز، مصر اور مغرب مگر جو ممالک بحرین سے پہلے واقع ہیں، مثلا ہندوستان، سندھ اور ماوراء النھر کے ممالک (بالائی روس کے ممالک) ان ملکوں کے لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب