السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک امام مسجد جو لوگوں کو نماز تراویح پڑھاتا ہے اور ہر رکعت میں تقریبا قرآن پاک کے ایک صفحے کی تلاوت کرتا ہےے جو قریبا پندرہ آیات ہوتی ہیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ امام لمبی قراءت کرتا ہے جب کہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ مقدار مناسب ہے۔ سوال یہ ہے کہ نماز تراویح میں کس قدر تلاوت سنت مبارکہ سے ثابت ہے اور کیا کوئی حد مقرر ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہو اور اس حد سے تجاوز کرنے کو لمبی قراءت کہا جا سکتا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بھی اور اس کے علاوہ دنوں میں بھی رات کو گیارہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے مگر آپ قراءت اور ارکان کو بہت لمبا کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ نے ایک رکعت میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے پانچ پاروں سے زیادہ کی تلاوت فرمائی اور یہ بھی آپ کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ نصف شب سے ذرا پہلے یا ذرا بعد، نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور فجر کے قریب ہونے تک نماز جاری رکھتے اس طرح آپ تقریبا پانچ گھنٹوں میں کبھی تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور اس سے قراءت اور ارکان کی طوالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اور یہ بھی ثابت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو نماز تراویح پڑھنے کے لئے جمع کیا تھا اس وقت وہ بیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں تقریبا تیس متوسط طوالت کی آیات پڑھا کرتے تھے یعنی قرآن مجید کے چار یا پانچ صفحات کے برابر، تو وہ آٹھ رکعات میں پوری سورہ البقرہ پڑھ لیتے تھے۔
اگر انہوں نے اس کو بارہ رکعات میں پڑھا تو انہوں نے دیکھا کہ یہ قراءت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں کم ہے۔ چنانچہ جب قراءت کی مقدار کم ہوئی تو انہوں نے رکعات کی تعداد میں اضافہ کر لیا۔
بعض ائمہ کرام کے قول کے مطابق صحابہ کرام اکتالیس رکعات تک تراویح کی نماز پڑھتے تھے اور اگر کوئی ان میں سے گیارہ یا تیرہ رکعات پر اکتفا کرنا چاہتا تو وہ تلاوت کی مقدار میں اضافہ کر لیتا تھا اور ارکان نماز کو لمبا کرتا تھا بہرحال نماز تراویح کی رکعات کی کوئی تعداد معین نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ آپ اتنی دیر تک نماز پڑھیں جس میں اطمینان اور غوروفکر حاصل ہو جائے اور یہ تقریبا ایک گھنٹہ سے کم وقت نہیں ہونا چاہیے۔ تو جس شخص نے یہ کہا کہ ایسی نماز لمبی ہے اس نے سنت کی مخالفت کی اور اس کی بات پر توجہ نہ دی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب