السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے مرگی کا مرض لاحق ہے۔ جس وجہ سے میں رمضان شریف کے روزے نہیں رکھ سکتا۔ مجھے دن میں تین مرتبہ دوائی استعمال کرنا ہوتی ہے۔ میں نے دو دن روزہ رکھا مگر اس کو پورا نہیں کر سکا۔ میں ریٹائرڈ ہوں اور مجھے بطور پینشن محض 83 دینار ماہوار ملتے ہیں۔ میری بیوی بھی ہے اور پینشن کے علاوہ میرا کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں شرع کا میرے بارے میں کیا حکم ہے کہ اگر میں رمضان کے ماہ میں تیس مسکینوں کو کھانا نہ کھلا سکوں تو وہ کتنی رقم ہے جو میں نے ادا کرنی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جس مرض کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں امید کی جا سکتی ہے کہ کسی دن ان شاءاللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ انتظار کریں یہاں تک کہ آپ صحت یاب ہو جائیں۔ پھر آپ روزہ رکھیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ... ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کو چاہیے کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔‘‘ (یعنی اس دوران جتنے روزے چھوٹے ہیں ان کو رکھ لے)
لیکن اگر یہ مرض مستقل ہے جس کی صحت یابی کی امید نہیں ہے۔ تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ ایک روزے کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اور ایسا کرنا جائز ہے کہ ایک دن دوپہر یا شام کا کھانا بنائیں اور رمضان کے دنوں کے برابر مساکین کو بلائیں اور کھانا کھلا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اتنی طاقت ۔اللہ کے فضل سے۔ نہیں رکھتا اور اگر آپ ایک ہی مرتبہ ایک ماہ میں اتنے آدمیوں کو کھانا کھلانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو آپ ان میں سے بعض کو اس ماہ میں کھانا کھلا دیں اور بعض کو دوسرے مہینوں میں حسب استطاعت کھلا دیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب