السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم کچھ ساتھی ہیں جن کو دوسرے ملک کے دورے پر بھیجا گیا ہے۔ ہم میں سے بعض کو ایک سال بعض کو دو سال، بعض کو تین اور چار سال گزر چکے ہیں۔ کیا ہمارے اوپر رمضان کے ماہ میں مسافر کے روزے کا اطلاق ہو گا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں اہل علم، جمہور علمائے کرام کا اختلاف ہے اور چاروں ائمہ کرام کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں پر مقیم کا اطلاق ہو گا۔ یعنی روزے رکھیں گے، نمازوں میں قصر نہیں کریں گے۔ جرابوں اور موزوں پر تین دن مسح نہیں کریں گے بلکہ ایک دن اور رات کا مسح کر سکتے ہیں۔
مگر بعض علمائے کرام اور اہل علم کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں پر مسافر کے احکام نافذ ہوں گے۔ اس گروہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کے مایہ ناز شاگرد ابن القیم رحمہ اللہ شامل ہیں۔ ان کی دلیل قرآن و سنت کی ظاہری نصوص ہیں جن میں واضح طور پر سفر کی مدت معین نہیں کی گئی ہے۔
کتب میں مذکور ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے آذربیجان میں چھ ماہ قیام فرمایا اور وہ اس دوران قصر نماز ادا کرتے رہے۔ یہ اس مسئلہ میں واضح دلیل ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے دل و دماغ میں کوئی خلش ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ جمہور کے قول کے مطابق پوری نماز ادا کرے۔ روزے مقیم کی طرح رکھے۔ میرے نزدیک اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے نزدیک یہی بہتر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب