سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(6) زکوۃ اور اس کے فوائد

  • 21694
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 14587

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زکوۃ اور اس کے فوائد کے بارے میں بیان بالتفصیل


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکوۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک فرض اور اسلام کا اہم رکن ہے۔ کلمہ شہادۃ اور نماز کے بعد سب سے اہم ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے۔ کوئی مسلمان اس کا اگر انکار کرتا ہے تو وہ کافر اور مرتد ہے اس کو فورا توبہ کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر اس کو قتل کر دیا جائے اور جو شخص محض کنجوسی بخیلی کی بنا پر زکوۃ ادا نہیں کرتا (لیکن فرضیت کا قائل ہے) یا اس زکوۃ کو پورا ادا نہیں کرتا (کم ادا کرتا ہے) تو ایسا شخص ظالموں میں سے ہے۔ اللہ کے عذاب کا حقدار بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ يَبخَلونَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ هُوَ خَيرًا لَهُم بَل هُوَ شَرٌّ لَهُم سَيُطَوَّقونَ ما بَخِلوا بِهِ يَومَ القِيـٰمَةِ وَلِلَّهِ مير‌ٰثُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ ﴿١٨٠﴾... سورة آل عمران

’’نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس فضل و کرم (مال و دولت) سے جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے کہ ان کے لئے بہتر ہے (نہیں) بلکہ وہ ان کے لئے بری ہے۔ عنقریب ایسے لوگ قیامت کے دن طوق پہنائے جائیں گے کہ جو انہوں نے بخل کیا۔ جان لیں آسمانوں اور زمینوں کی میراث تو اللہ کے پاس ہے اور تم جو کام کرتے ہو اس سے وہ باخبر ہے۔‘‘

صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله شجاعا اقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ياخذ بلهزمتيه " يعني بشدقيه يقول : " انا مالك انا كنزك) (رواہ البخاري)

’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو اس مال کو قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ جس کے دو سیاہ نقطے ہوں گے اور پھر اس سانپ کو اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا پھر وہ اس کے جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا میں تمہارا مال ہوں، میں تمہارا مال ہوں (گنجے سانپ کے کثرت زہر کی وجہ سے بال جھڑ جاتے ہیں)۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿ وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّرهُم بِعَذابٍ أَليمٍ ﴿٣٤ يَومَ يُحمىٰ عَلَيها فى نارِ جَهَنَّمَ فَتُكوىٰ بِها جِباهُهُم وَجُنوبُهُم وَظُهورُهُم هـٰذا ما كَنَزتُم لِأَنفُسِكُم فَذوقوا ما كُنتُم تَكنِزونَ ﴿٣٥﴾... سورةالتوبة

’’اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔ جس دن (اس خزانے کو) جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ یہ وہ خزانہ ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ پس اس کو چکھو جو تم خزانہ بناتے تھے۔‘‘

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فاحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره  كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين العباد)

’’جو بھی سونے اور چاندی کا مالک اس کی زکوۃ نہیں ادا کرتا۔ قیامت کے دن اس کے لئے آگ کی تختیاں تیار کی جائیں گی۔ پھر ان کو جہنم کی آگ میں مزید گرم کیا جائے گا اور اس سے ان کی جبینوں اور پہلوؤں اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو دوبارہ ان کو گرم کر دیا جائے گا اور یہ سلسلہ پچاس ہزار سال کے دن میں برابر چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔ (یعنی جنہوں نے جہنم میں جانا ہے یا جنت میں جانا ہے)۔‘‘

زکوۃ کے دینی فوائد

1۔ ارکان اسلام میں سے ایک رکن کا قیام، جس سے بندے کو دنیا و آخرت کی سعادت ملتی ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ایمان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔

3۔ اس کی ادائیگی سے بندے کو اجر عظیم ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ﴾سورۃ البقرۃ))

’’اللہ تعالیٰ سود کو ختم کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما ءاتَيتُم مِن رِبًا لِيَربُوَا۟ فى أَمو‌ٰلِ النّاسِ فَلا يَربوا عِندَ اللَّهِ وَما ءاتَيتُم مِن زَكو‌ٰةٍ تُريدونَ وَجهَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُضعِفونَ ﴿٣٩﴾... سورةالروم

’’اور جو تم سود دو کہ اس سے لوگوں کا مال بڑھ جائے (جان لو) کہ یہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا (ہاں) جو تم زکوۃ ادا کرو اور سبب اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو تو جان لو کہ (اللہ تعالیٰ) ان لوگوں کا مال دوگنا کر رہے ہیں۔‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(من تصدق بعدل تمرة  -أي بما يعادل تمرة- من كسب طيب ولا يقبل الله إلا الطيب , وإن الله يتقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبه كما يربي احدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل)

’’جس شخص نے کھجور کے برابر صدقہ کیا یعنی وہ کھجور جو حلال کی کمائی سے آئی ہو اور اللہ تعالیٰ تو قبول ہی حلال کی کمائی کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اس (صدقہ) کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس صدقہ دینے والے کے لئے پرورش (بڑھاتے) ہیں جس طرح کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ (ایک کھجور کا صدقہ) پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘

اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ حدیث سے مراد یہ ہے کہ صدقہ (زکوۃ) دینے کی بڑی فضیلت ہے اور دینے والے کے اخلاص کی بدولت بعض اوقات ایک کھجور اللہ کے ہاں پہاڑ سے بڑھ جاتی ہے۔ (واللہ اعلم)

4۔ صدقہ اور خیرات دینے سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(والصدقة تطفئ غضب الرب كما يطفئ الماء النار)

’’صدقہ گناہوں کو اس طرح بجھا (ٹھنڈا) کر دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔‘‘

اور یہاں صدقہ سے مراد زکوۃ اور تمام نفلی صدقات ہیں۔

زکوۃ کے اخلاقی فوائد

1۔ زکوۃ دینے والے انسان میں جود و سخاوت کی صفت پیدا ہوتی ہے۔

2۔ زکوۃ دینے سے فقیر اور مسکین بھائیوں کے لئے جذبہ رحم، مہربانی ابھرتا ہے اور دوسرے پر رحم کر کے خود بھی اللہ کی رحمت حاصل کرتے ہیں۔

3۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ مسلمانوں کو نفع پہنچانے سے انسان کو دلی سکون اور راحت ملتی ہے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں بھی محبوب بن جاتا ہے۔

4۔ زکوۃ ادا کرنے سے انسان کا نفس بخل اور کنجوسی اور نفس کی بخیلی سے پاک ہو جاتا ہے۔

جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها ... ﴿١٠٣﴾... سورةالتبوة

’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں۔‘‘

زکوۃ کے معاشرتی فوائد

1۔ زکوۃ ادا کرنے سے دنیا کے بے شمار ملکوں میں مقیم حاجت مند لوگوں کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔

2۔ زکوۃ دینے سے مسلمانوں کو مالی استحکام ملتا ہے۔ ان کی معاشی اور معاشرتی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔ مزید براں اجتماعی سطح پر شان و عظمت ملتی ہے اسی لئے مصارف زکوۃ میں جہاد فی سبیل اللہ کو بھی مدنظر رکھا گیا کہ زکوۃ کے مصارف میں جہاد کی ضروریات بھی پوری ہوں۔

3۔ زکوۃ ادا کرنے سے فقیر اور امیر کے درمیان محبت و پیار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جو مال و دولت کی وجہ سے غریبوں میں جو فطری حسد و بغض پیدا ہوتا ہے وہ زکوۃ کی بدولت دور ہو جاتا ہے۔ اس لئے جب امیر لوگ انہیں اپنے مال کا حصہ پیش کرتے ہیں تو پھر ان کے تعلقات میں بہتری آتی ہے اور پیار و محبت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

4۔ زکوۃ و خیرات مال میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ مال دینے والے کے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(ما نقضت صدقة من مال)

’’خیرات کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی۔‘‘

یعنی ممکن ہے کہ عدد کے اعتبار سے تو مال میں کمی ہو مگر برکت کی وجہ سے کمی نہیں آئے گی کہ اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والے کے مال میں برکت عطا فرما دیتے ہیں اور اس کا نعم البدل بھی عنایت کرتے ہیں۔

5۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال و دولت اغنیاء کے مابین ہی منجمد نہیں ہو جاتی بلکہ وہ مسلسل گردش میں رہتی ہے جس کی بدولت بہت سارے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اس کی بجائے اگر دولت مالداروں کے ہاتھوں میں رہے اور وہ زکوۃ ادا نہ کریں تو یقینا اس سے فقراء کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

مندرجہ بالا نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ ادا کرنا ایک فریضہ ہے جس سے معاشرے پر بڑے عمدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فرد کی اصلاح کا مرحلہ ہو یا معاشرے کی اصلاح کا، زکوۃ اس سلسلہ میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

زکوۃ مخصوص اموال میں فرض ہے۔ جن میں سونا، چاندی بھی شامل ہے، شرط یہ ہے کہ ان کی مقدار نصاب کو پہنچ جائے اور وہ سونا میں 11-3/7 جنیہ سعودی گنی مقرر ہیں اور ان مذکورہ چیزوں میں دسویں حصہ کی چوتھائی یعنی چالیس فیصد کے اعتبار سے زکوۃ دی جائے گی۔

اس بات میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سونا اور چاندی نقدی صورت میں ہو یا زیور کی صورت میں یا ڈلی کی صورت میں۔ ہر حالت میں زکوۃ دینا ضروری ہے۔ تاہم اس زیور کا نصاب کی حد تک پہنچنا ضروری ہے۔ اب اگر زیور یا سونا پاس ہے تو زکوۃ ہر حال میں ادا کرنا ہو گی خواہ اس کو پہنا جائے یا نہ پہنا جائے یا کسی کو عاریتا دینے کے لئے رکھا ہو۔ اس لئے کہ اس ضمن میں احادیث بڑی واضح ہیں۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(أن امراة أتت النبي صلى الله عليه وسلم وفي يد ابنتها مسكتان من ذهب فقال أتعطين زكاة هذا؟ قالت لا قال ايسرك ان يسورك الله بهما سوارين من نار فالقتهما هما لله ورسوله)

’’ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جس نے سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو۔ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ آگ کے کنگن پہنائے۔ تو اس عورت نے ان دونوں کنگنوں کو اتارا اور کہا یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔ (مراد یہ ہے کہ صدقہ کر دیا)

یہ حدیث بلوغ المرام میں ہے جس کو ثلاثہ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے۔

جن اموال سے زکوۃ دینا ضروری ہے ان میں تجارت کے لئے رکھی گئی اشیاء، اس میں ہر قسم کی اشیاء شامل ہیں۔ جن کو تجارت کہہ سکتے ہیں۔

جائیداد (زمین، عمارتیں وغیرہ) گاڑیاں، مویشی کپڑا وغیرہ تو اس میں ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔ بشرطیکہ ان پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔ موجودہ مارکیٹ کے مطابق اس کی قیمت لگانا ہو گی۔ خریدتے وقت اس کی قیمت کم تھی یا زیادہ زکوۃ کا حساب موجودہ وقت میں جو مارکیٹ میں اس چیز کی قیمت ہے اس کے مطابق حساب کر کے زکوۃ ادا کریں۔ البتہ وہ اشیاء جو ذاتی استعمال میں ہوں یا ان کو کرایہ پر دینے کے لئے رکھا گیا ہو تو ان پر زکوۃ نہیں ہے۔

(تاہم علمائے کرام کے مطابق کرایہ پپر دی گئی اشیاء کے کرایہ پر زکوۃ ادا کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ:

(ليس على المسلم في عبده ولا فرسه صدقة)

’’مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑوں پر زکوۃ نہیں ہے۔‘‘

لیکن ان کی اجرت پر جب اس پر سال پورا ہو جائے اور اسی طرح سونے اور چاندی پر زکوۃ لازمی ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:36

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ