سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(4) روزہ کو توڑنے والی اشیاء

  • 21692
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1863

سوال

(4) روزہ کو توڑنے والی اشیاء

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزہ کو توڑنے والی اشیاء


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ توڑنے والی اشیاء سات ہیں۔

1۔ بیوی سے مجامعت کرنا: اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرتا ہے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس غلط کام کا اس کو کفارہ یہ دینا ہو گا کہ وہ ایک غلام آزاد کرے اور اگر وہ غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر وہ ان کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ ہاں اگر اس پر روزہ فرض نہیں ہے، جیسے وہ رمضان کے ماہ میں مسافر ہے اور وہ اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرتا ہے تو اس پر کفارہ نہیں ہے تاہم اس روزہ کی قضا دینا ہو گی۔

2۔ منی کا خارج ہونا: خواہ بیوی سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجہ میں یا اس سے بوسہ و کنار کی وجہ سے ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن صرف بوس و کنار ہوا اور انزال نہ ہوا تو اس کا روزہ صحیح رہے گا۔

3۔ کھانا پینا: اور اس سے مراد یہ ہے کہ کھانے یا پینے والی اشیاء کو آدمی اپنے معدہ میں پہنچا دے۔ خواہ وہ منہ کے ذریعے لے جائے یا ناک کے ذریعے کسی بھی قسم کی غذائیت یا پینے والی چیز ہو، حتی کہ روزے دار کے لئے دھواں دار چیزوں کو سونگھنا بھی جائز نہیں ہے۔ جب کہ اسے ڈر ہو کہ دھواں پیٹ میں داخل ہو جائے گا کیونکہ دھواں گیسوں کا ایک مجموعہ ہے جب کہ خوشبو سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

4۔ جو چیز کھانے پینے کے قائم مقام ہو مثلا ٹیکہ لگوانا۔ اگر یہ غذا دار ہو کہ کھانے پینے کی جگہ کافی ہو تو ناجائز ہے، روزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اگر غذا کو شامل نہیں تب جائز ہے، چاہے وریدی ہو یا عضلی۔

5۔ سینگی یا فصد (نشتر) لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جب کہ خون بکثرت نکلے جس سے صحت پر اثر پڑے۔ تاہم اگر قلیل مقدار میں نکلے جیسے اسپتال میں خون ٹیسٹ کرانے وغیرہ کے لئے نکالا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ اس سے صحت پر مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

6۔ جان بوجھ کر قے کرنے سے۔

7۔ حیض و نفاس کا خون نکل آنا۔

سو مذکورہ تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔ مگر تین شروط پر مقید ہے۔

ا۔ مندرجہ بالا سات امور سے متعلق شرعی حکم جانتا ہو اور وقت بھی معلوم ہو۔

ب۔ اسے یاد ہو۔

ج۔ صاحب اختیار ہو۔ مثلا اگر وہ سینگی لگواتا ہو اس خیال سے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کا روزہ درست ہے کیونکہ اس کو اس مسئلہ کا علم ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ...﴿٥﴾... سورةالاحزاب

’’تم سے بھول چوک سے جو ہو جائے اس کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ اگر دل سے قصد ایسا کرو گے تو گنہگار ہو گے۔‘‘

نیز ارشاد ربانی ہے:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾... سورةالبقرة

’’اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہمیں نہ پکڑ۔‘‘

صحیح بخاری و مسلم میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دو دھاگے ایک سفید اور ایک کالا اپنے تکیے کے نیچے رکھ لئے۔ اب وہ سحری کھاتے جاتے تھے اور ان دھاگوں کی طرف دیکھتے جاتے تھے اور کھاتے جاتے تھے جب ایک دوسرے میں تمیز ہو گئی تو انہوں نے کھانا روک دیا ان کے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾ (البقرۃ)) یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے گا۔

سے یہی کچھ مراد تھا۔ (حالانکہ اصل مسئلہ یوں نہ تھا) انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے ان کو سمجھایا کہ اس سے مراد صبح کی سفیدی اور رات کی سیاہی ہے اور آپ نے اس کو دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا اگر کوئی شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ ابھی سحری کا وقت ختم نہیں ہوا ہے اور وہ کھانا سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود کھاتا رہا ہے تو اس کا روزہ درست ہو گا۔ اس لئے کہ اس کو تو علم ہی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ سورج غروب ہو چکا ہے اور وہ روزہ افطار کر لیتا ہے تو اس کا روزہ درست ہے کیونکہ وہ وقت کے بارے میں لا علم ہے، اس کو علم ہی نہیں۔

شرط کی پہلی مثال:

چنانچہ حدیث شریف میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ افطار کیا۔ اس روز بادل چھائے ہوئے تھے۔ افطارکے بعد بادل چھٹ گئے تو سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ ایسی صورت حال میں جب کہ غلطی سے قبل از وقت روزہ افطار کر لیا تھا اگر قضا واجب ہوتی تو یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو واضح فرماتے، اس کے بارے میں حکم دیتے۔ (مگر اللہ کے رسول نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا) کیوں کہ دین تو مکمل ہو چکا ہے اور اس کے شارع اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور اگر کوئی حکم دیا ہوتا تو اس کو صحابہ کرام ضرور بیان فرما دیتے۔ اس لئے کہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ نے لی ہوئی ہے۔ اب صحابہ کرام نے اس مسئلہ کو بیان نہیں کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول نے اس کو بیان نہیں کیا ہے اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ صورت مذکورہ میں قضا واجب نہیں ہے۔ خصوصی طور پر جب ایک مسئلہ کے عوامل و اسباب بھی وافر ہوں تو بھی وہ نقل نہ کیا جائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو ایسی بات ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت کرتے تو ناممکن ہے کہ وہ نقل نہ ہوتا۔

شرط کی دوسری مثال: اسی طرح اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں بھول چوک کر کھانا کھا لیتا ہے اس کو روزہ توڑنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی واضح حدیث ہے۔ ارشاد ہوا:

(من نسي وهو صائم فاكل او شرب فليتم صومه فإنما اطعمه الله وسقاه) (متفق علیه)

’’جس شخص نے بھول چوک کر روزہ کی حالت میں کھانا کھا لیا یا پانی پی لیا تو اسے چاہیے کہ اپنے روزہ کو پورا کرے اس لئے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘

شرط کی تیسری مثال: اسی طرح کسی شخص کو جبرا روزہ کی حالت میں کھانا کھلا دیا جائے کا کلی کا کوئی قطرہ اس کے پیٹ میں چلا جائے یا آنکھ میں دوا ڈالی اب دوا کے قطرے کا ذائقہ اس کے پیٹ میں چلا گیا یا آدمی کو احتلام ہو گیا تو ان تمام حالتوں میں اس کا روزہ صحیح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے کام اس کے ارادہ کے بغیر ہوئے ہیں۔

مزید فروعی مسائل:

شیخ صاحب نے فرمایا مسواک کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بلکہ روزہ کی حالت میں مسواک کرنا سنت ہے۔ مسواک دن کے کسی بھی حصہ میں اور کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ خواہ وہ دن کا پہلا پہر ہو یا دن کا آخری حصہ اور روزہ دارکے لئے جائز ہے کہ وہ سخت گرمی یا پیاس سے بچنے کے لئے اپنے سر پر پانی ڈال لے یا غسل کرے۔ یا اس طرح کا کوئی طریقہ اختیار کرے جس سے اس کو راحت مل جائے۔ اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں پیاس کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈالتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں گیلا کپڑا اپنے اوپر لیا کرتے اور یقینا یہ وہ تمام سہولتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا کی گئی ہیں اور بلاشبہ یہ اس کا فضل و کرم اور احسان ہے اور یہ وہی نرمی، سہولت ہے جسے اللہ نے روزوں کا حکم دے کر بعد میں بیان کیا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:26

محدث فتویٰ

تبصرے