سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) مریض اور مسافر کے روزوں کے احکامات

  • 21691
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3138

سوال

(3) مریض اور مسافر کے روزوں کے احکامات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مریض اور مسافر کے روزوں کے احکامات


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ...﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة

’’جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں یہ گنتی پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘

مریضوں کی دو اقسام ہیں

پہلی قسم: ایک قسم ان دائمی مریضوں کی ہے جن کی صحت کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ مثلا اگر کسی کو سرطان کا مرض لاحق ہے تو ایسے شخص کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس کی صحت اس کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی اس کو صحت یابی کی کوئی امید ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے مریض کو چاہئے کہ وہ ہر روز کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے یا پھر روزوں کے دنوں کے برابر مساکین کو جمع کر کے کھانا کھلا دے۔ مشہور صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب عمر رسیدہ ہو گئے تو وہ اسی طرح کیا کرتے تھے۔ یا پھر دنوں کے مطابق مساکین کو چوتھائی صاع (غلہ ماپنے کا پیمانہ) نبوی کے مطابق غلہ دے دیں۔ یا پھر چھ سو گرام اعلیٰ قسم کی گندم ہر روزہ کے بدلہ میں ادا کر دے۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ صرف غلہ ہی نہ دے بلکہ اس کے ساتھ گھی، گوشت یا کوئی ایسی چیز دے جو سالن ہو یا سالن کا بدل ہو۔ اسی طرح بہت بوڑھا آدمی ایک مسکین کو ہر روز کھانا کھلا دے۔

دوسری قسم: عارضی قسم کا مریض، جیسے کسی کو بخار وغیرہ ہو گیا یا اچانک کوئی بیماری آ گئی تو اس میں تین صورتیں ممکن ہیں۔

پہلی صورت: بیمار تو ہے مگر اس کو روزہ رکھنے سے کوئی تکلیف نہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزہ رکھے اس لئے کہ اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔

دوسری صورت: روزہ رکھنے سے اسے مشقت کا سامنا ہوتا ہے مگر روزہ سے اس کی صحت پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا تو اس حالت میں اس کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رخصت دی ہے اور وہ خوامخواہ برداشت کر رہا ہے۔

تیسری صورت: روزہ رکھنے سے اس کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے روزہ مضر ہے۔ تو ایسی صورت میں بیمار کے لئے روزہ رکھنا حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿ وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا ﴿٢٩﴾... سورةالنساء

’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ ...﴿١٩٥﴾... سورةالبقرة

’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔‘‘

اور حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لا ضرر ولا ضرار) (رواہ ابن ماجه والحاکم)

’’نہ نقصان پہنچاؤ نہ اس کے اسباب اپناؤ۔‘‘

اس حدیث کو ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی کئی اسناد ہیں جن سے یہ قوی ہو گئی ہے۔

روزہ کی رخصت کی پہچان اور قضا دینے کا بیان

مریض پر روزہ کے مضر اثرات خود مریض کو محسوس ہو جاتے ہیں اور طبیب بھی اس کو روزہ کے مضر اثرات سے مطلع کرتا ہے۔ جب مریض صحت مند ہو جائے گا تو جتنے روزے اس نے چھوڑے ہیں وہ پورے کرے گا اور اگر مرض ختم ہونے سے پہلے مریض فوت ہو جاتا ہے تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ کیونکہ اس نے رمضان کے بعد ان چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کرنا تھا، جس کی وہ مہلت نہ پا سکا۔

مسافر کے روزے

مسافر کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: کوئی شخص محض اس لئے سفر اختیار کرے کہ اس سے روزہ کی چھوٹ مل جائے گی تو ایسے شخص کو روزہ افطار کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ روزہ اللہ کا فرض کردہ ہے اور فرض کو ساقط کرنے کے لئے کوئی بھی حیلہ کیا جائے تو اس سے فرض بہرحال باقی رہتا ہے، ساقط نہیں ہوتا۔

دوسری قسم: ایسا مسافر جس کا سفر روزوں سے بچنے کے لئے نہ ہو تو اس صورت میں تین حالتیں ممکن ہیں۔

پہلی حالت: آدمی روزہ سے سخت مشقت میں پڑ جاتا ہے تو اس کے لئے روزہ رکھنا حرام ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سفر میں روزہ کی حالت میں تھے لیکن جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ لوگوں کو روزہ رکھنے سے کافی مشقت اور تکلیف کا سامنا ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ کیا کریں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد پانی پیا یعنی روزہ افطار کیا تو دیگر لوگوں نے بھی روزہ افطار کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ افطار نہیں کیا تو ارشاد فرمایا:

(اولئك العصاة اولئك العصاة) (رواہ مسلم)

’’یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘

دوسری حالت: روزہ رکھنے کی صورت میں اس کو مشقت ضرور ہے مگر قابل برداشت ہے۔ زیادہ سخت نہیں ہے تو ایسے مسافر کا روزہ بھی ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رخصت دی ہے، آسانی کی ہے تو پھر اپنے نفس کو مشقت میں کیوں ڈالا جائے۔

تیسری حالت: روزہ رکھنا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی وجہ سے اس مسافر کو کوئی تکلیف ہے تو جو چیز اس کو آسان لگے وہ چیز اختیار کر لے، چاہے تو روزہ رکھ لے چاہے تو نہ رکھے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ...﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة

’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘

اور لفظ يُرِيدُ یعنی ارادہ کا مفہوم محبت ہے اگر آدمی کے نزدیک روزہ رکھنا یا نہ رکھنا برابر ہے تو اس شخص کے حق میں روزہ رکھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حالت میں روزہ رکھا۔

صحیح مسلم میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں سفر میں نکلے۔ سخت گرمی کی وجہ سے بعض لوگوں نے اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوئے تھے (تاکہ گرمی سے بچ سکیں) ایسی حالت میں ہم میں صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ روزہ دار تھے۔

آدمی جب شہر سے نکل پڑے تو اس وقت سے لے کر شہر واپس لوٹ آنے تک وہ مسافر ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے شہر میں جا کر مقیم ہو جاتا ہے تو وہ جب تک وہاں قیام کرتا ہے، مسافر ہی رہتا ہے۔ جب تک اس کی نیت یہ ہو کہ جیسے ہی اس کا کام ختم ہو گا وہ واپس لوٹ جائے گا۔ تو ایسی حالت میں اس کو سفر کی رخصت حاصل رہے گی اگرچہ اس کے قیام کی مدت طویل ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے قیام کی کوئی مدت بیان نہیں کی ہے۔

سفر خواہ حج، عمرہ یا کسی رشتہ دار سے ملنے کی غرض سے یا تجارت کی نیت سے کیا جائے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو مستقل سفر کی حالت میں رہتے ہیں جیسے ٹیکسی ڈرائیور، یا بڑی گاڑیاں (ٹرک، ٹریلہ) چلانے والے یہ سب کے سب اگر شہر سے باہر سفر پر نکلتے ہیں تو اب یہ مسافر ہیں۔ ان کے لئے وہی احکامات ہیں جو عام مسافروں کے لئے ہیں۔ یعنی یہ رمضان میں روزہ افطار کر سکتے ہیں اور قصر نماز ادا کریں گے۔ یعنی چار رکعتوں کو دو رکعت پڑھیں گے اگر ان کو ضرورت ہو تو ظہر عصر اور مغرب عشاء کو اکٹھا کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ سفر کی حالت میں ان کے لئے روزہ نہ رکھنا، روزہ رکھنے سے بہتر ہے اور سردی کے (چھوٹے) دنوں میں قضا دیں۔ ہاں اگر ان کے لئے مشقت نہ ہو تو روزہ رکھ لیں۔ یہ گاڑیاں چلانے والے کسی نہ کسی جگہ ضرور رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ اگر یہ اپنے شہر میں ہوں (جہاں ان کا گھر ہے) تو پھر ان پر وہی احکامات ہوں گے جو مقیم پر ہیں (یعنی روزے رکھیں گے اور نمازیں پوری ادا کریں گے) اور جب بھی یہ سفر کی حالت میں ہوں گے تو ان پر احکامات مسافروں والے نافذ ہوں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:19

محدث فتویٰ

تبصرے