السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
روزوں کی حکمت اور ان کے فوائد
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام حکیم ہے۔ جس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ وہ حکمت والا ہے اور حکمت یہ ہے کہ تمام کاموں کو اچھی طرح سے ادا کرنا اور اس کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا۔
اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہے اور اس نے جو چیز بھی پیدا کی ہے یا اس کو نافذ کیا ہے تو اس میں یقینا کوئی حکمت ہے۔ جو اس حکمت کو نہ سمجھ پایا، تو یہ اس کی اپنی کم علمی ہے ورنہ اس کا کوئی کام اور حکم حکمت سے خالی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت اور ان کی حکمت و فوائد سے اپنے بندوں کو آگاہ کر دیا ہے۔
1۔ روزوں کی حکمتوں میں اہم چیز یہ ہے کہ یہ ایک عبادت ہے۔ بندہ اس عبادت سے اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اس کی محبت کی خاطر چھوڑ دیتا ہے۔ انسان کا کھانا پینا اور نکاح وغیرہ محض اپنے رب کی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کی خاطر چھوڑتا ہے۔ یہ چیز انسان کے ایثار کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا کے لئے اپنی محبوب ترین چیزوں کو پس پشت ڈالتا اور آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔
2۔ روزوں کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جب روزہ دار اپنے روزوں کو واجبات کے ساتھ ادا کرتا ہے تو وہ اس میں تقویٰ کی صفت پیدا کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورةالبقرة
’’ے لوگو! جو ایمان لائے ہو تمہارے اوپر روزے فرض کر دئیے گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو جائے۔‘‘
3۔ روزہ رکھوانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ بھی ہے کہ انسان متقی بن جائے۔ اس لئے روزہ دار کو حکم دیا گیا کہ وہ تقویٰ کی صفت کو ضرور مدنظر رکھے۔ تقویٰ اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے بچنے کا نام ہے۔ اور روزوں کا اصل مقصود اعظم یہی تقویٰ ہے۔ یہ نہیں کہ روزے دار کو کھانا پینا چھڑوا کر اور بیوی سے دور کر کے اس کو اذیت میں ڈالا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في ان يدع طعامه وشرابه) (رواہ البخاری)
’’جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا ترک نہ کرے اور جہالت نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ بھوکا پیاسا رہے۔‘‘
ذرا حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں۔ قول الزور سے مراد ہر وہ بات جو حرام قرار دی گئی مثلا جھوٹ بولنا، غیبت کرنا کسی کو گالی دینا وغیرہ اور اسی طرح کے دیگر اقوال ہیں۔ عمل بالزور سے مراد بھی ہر وہ کام ہے جو غلط ہے اور حرام کیا گیا ہے مثلا لوگوں کے مال میں خیانت کا مرتکب ہونا، ان کو دھوکہ دینا، کسی کو مارنا، کسی کا مال ناحق لینا، اسی طرح حرام چیز کا سننا جیسے حرام گانا، ساز بانسری موسیقی وغیرہ یہ ساری چیزیں اس میں داخل ہیں۔
اور جہل سے مراد ہے بیوقوفی یعنی اقوال و اعمال میں ہدایت سے ہٹ جانا اور پہلوتہی کرنا۔
4۔ روزہ سراسر تربیت نفس نہیں تو اور کیا ہے؟ یہی وہ تربیت ہے جس کے اثرات آدمی کے اخلاق و کردار پر پڑتے ہیں اور رمضان المبارک کے بعد بھی اس پر تا دیر اس تربیت کے اثرات باقی رہتے ہیں۔
5۔ رمضان المبارک کے روزوں کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ امیر آدمی کو اللہ کے انعامات اور فضل و کرم کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اس عظیم نعمت کو پہچانتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھولے ہوئے ہیں۔ عام حالت میں وہ جو کھانا پینا، عیش و آرام چاہتا ہے اسے میسر آ جاتا ہے۔ لیکن جب روزہ کی صورت میں اس پر پابندی لگی تو اس کو اس نعمت کا احساس ہوا۔
پھر ساتھ ہی اس کو اپنے مفلس بھائی کی مشکلات کا بھی احساس ہوتا ہے جس کو مادی سہولتیں میسر نہیں ہیں چنانچہ وہ صدقات خیرات سے اس کی مدد کرتا ہے۔
6۔ روزوں کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کو نفس پر قابو پانا آ جاتا ہے۔ اپنے نفس کو خواہشات کے نہیں بلکہ خواہشات کو نفس کے تابع کر لیتا ہے اور اس کو دنیا و آخرت میں خیر اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے۔ جس سے وہ صحیح انسان بن جاتا ہے۔ اس میں حیوانی جبلت ختم ہو جاتی ہے۔ جب انسان میں حیوانی جبلت آ جائے تو وہ اسے دنیا کی لذتوں اور شہوتوں کی طرف لے جاتی ہے مگر روزہ اس کا بہترین علاج ہے۔ انسان روزہ سے اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور وہ برائی سے بچ جاتا ہے۔
7۔ روزوں کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے صحت اور تندرستی حاصل ہوتی ہے۔ رمضان کے دوران کھانا معمول سے کم کھاتا ہے جس سے نظام ہضم درست ہو جاتا ہے اور جسم سے فاسد مادے اور رطوبات جو مضر صحت ہوتی ہیں، خارج ہو جاتی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب