سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(711) صحابہ کرام کو گالی دینے والے کا حکم

  • 2169
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3185

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحابہ کرام کو گالی دینے والے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحابہ کرام انبیاء کے بعد کائنات کے سب سے افضل و اعلی اور اللہ کو محبوب لوگ تھے،جنہیں اللہ تعالی اپنے نبیﷺ کی رفاقت کے لئے منتخب فرمایا،اور ان کے ذریعے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی۔ دین اسلام اگر بحفاظت ہم تک پہنچا ہے تو وہ انہی کی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ صحابہ کی شان میں گستاخی کرنا درحقیقت دین میں نقب لگانا ہے۔

فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ہم پر واجب ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین سے محبت کریں، ان کا احترام کریں ، ان کی عزتوں کا دفاع کریں او ر جو ان کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں ان کے بارے میں خاموش رہیں۔ جو ان کو گالی دے اس کو منافق سمجھیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کی جرأت وہی کرتا ہے جو نفاق میں لتھڑا ہوا ہو ( العیاذ باللہ ) ورنہ وہ کیسے صحابہ کو گالی دے سکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’خیرالناس قرنی ثم الذین یلونهم ثم الذين يلونهم‘‘

بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ، پھر جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر جو ان کے بعد آئیں گے

اور اسی طرح فرمایا :

’’لا تسبوا أصحابي ‘‘

میرے صحابہ کو گالی نہ دو ۔

اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کو گالی دینا درحقیقت صحابہ میں تو طعن ہے بلکہ ، شریعت ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی حکمت میں بھی طعن ہے ۔

صحابہ میں طعن ہونا تو بالکل واضح بات ہے ۔

اور شریعت میں طعن اس طرح کہ ہمارے لیے شریعت کےناقلین صحابہ کرام ہی تو ہیں ، جب ناقل شریعت ہی مستحق شب وشتم قرار دے دیاجائے تو لوگوں کا اللہ کی شریعت سےبھی اعتماد اٹھ جائے گا ۔ اور اسی لیے بعض لوگ تو ( العیاذ باللہ ) صحابہ کرام کو فاجر و فاسق اور کافر تک قرار دیتےہیں او ر گالی دیتےہوئے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اشرف صحابہ کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں طعن اس طرح ہے کہ آدمی اپنےدوست کےحال پر سمجھا جاتا ہے دونوں کی قدرو منزلت کا ایک دوسرےسے اندازہ ہوتا ہے چنانچہ لوگ جب کسی کو کسی فاسق شخص کا دوست پاتےہیں تو ان کا اس سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔

اور مشہور حکایت بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ :

’’المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل‘‘

انسان اپنے دوست کےدین پر ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو دیکھ بھال کر دوست اختیار کرناچاہیے ۔

ایک اور منظوم حکایت ہے :

’’عن المرء لاتسئل وسل عن قرينه فكل قرين بالمقارن يقتدي‘‘

آدمی کے بارے میں نہ پوچھ بلکہ اس کے ساتھی کے بارے میں پوچھ لے کیونکہ ہر دوست اپنے دوست کی ہی پیروی کرتا ہے ۔

اور اللہ کی حکمت میں طعن یوں بنتاہے کہ کیا اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوکہ اشرف الخلق ہیں ان کی صحبت کے لیے ایسے فاجر و فاسق او رکافر لوگوں کا انتخاب کیا ہے ( العیاذ باللہ )۔ اللہ کی قسم یہ حکمت نہیں ہو سکتی ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ اسی سوال کےجواب میں فرماتےہیں :

حمد وصلاۃ کے بعد ، صحابہ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سےہے بلکہ یہ ارتداد عن الاسلام ہے پس جو شخص ان کو گالی دے گا اور ان سے بغض رکھے گا وہ مرتد ہے ، کیونکہ وہ ناقلین شریعت ہیں انہوں نے حدیث و سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم تک پہنچایا ، وہ ناقلین وحی ہیں انہوں نے قرآن کریم ہم تک پہنچایا ، جو شخص ان کو گالی دے یا ان سے بغض رکھے یا ان کے فسق کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ