سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) مرد اور عورت کے لیے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

  • 21643
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1224

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرد  اورعورت کے لیے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟ اور کیا اعتکاف کرنے کے لیے روزہ شرط ہے؟اور معتکف بحالت اعتکاف کیاکرے؟نیز وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں کس وقت داخل ہواور کب باہر نکلے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتکاف مرد اور عورت دونوں کے لیے سنت ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے، اور آخر زندگی میں صرف آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، آپ کے ساتھ بعض ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی تھیں، اورآپ کی وفات کے بعد بھی انہوں نے اعتکاف کیا۔

اعتکاف کرنے کی جگہ وہ مساجد ہیں جن میں باجماعت نماز قائم کی جاتی ہو،اعتکاف کے دوران اگر جمعہ پڑے تو افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔

اعتکاف کرنے کے لیے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کوئی متعین وقت نہیں، اور نہ ہی اس کے لیے روزہ رکھنا شرط ہے، البتہ روزہ کی حالت میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔

سنت یہ ہے کہ معتکف نے جس وقت سے اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے اس وقت وہ اپنے معتکف(اعتکاف کی جگہ) میں داخل ہو اور جتنی دیر کے لیے اعتکاف کی نیت کی تھی وہ وقت پورا ہونے پر باہرآجائے۔کوئی ضرورت پیش آجائے تو اعتکاف توڑبھی سکتا ہے،کیونکہ یہ سنت ہے ،اس کا پورا کرنا ضروری نہیں، البتہ اس صورت میں اعتکاف پورا کرنا ضروری ہے جب اس کی نذر مانی گئی ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنامستحب ہے۔ اور جوشخص اس عشرہ میں اعتکاف کی نیت کرے اس کے لیے مستحب یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتداء کرتے ہوئے اکیسویں رمضان کو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہو اور آخری عشرہ مکمل ہونے پر باہر آئے۔درمیان میں  اگر وہ اعتکاف توڑدے تو اس میں کوئی حرج نہیں، الا یہ کہ اس نے اعتکاف کرنے کی نذر مانی ہو،تو اس صورت میں اعتکاف پورا کرنا ضروری ہے،جیساکہ اوپر مذکورہوا،افضل یہ ہے کہ معتکف مسجد کے اندر اپنے لیے کوئی مخصوص جگہ بنا لے،تاکہ ضرورت محسوس ہونے پر اس میں کچھ آرام کرسکے۔

معتکف کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے اور ذکر واذکار اور دعا واستغفار میں مشغول رہنا چاہیے۔نیز غیر ممنوع اوقات میں بکثرت(نفل) نمازیں پڑھنی چاہییں۔

معتکف کے بعض احباب واقارب اگر اس سے ملنے کے لیے آئیں تو یہ ان کے ساتھ گفتگو کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعتکاف کی حالت میں بعض ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین ۔آپ سے ملنے کے لیے آتیں اور آپ کے ساتھ  گفتگو کرتی تھیں،ایک مرتبہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ سے ملنے کے لیے آئیں،اس وقت آپ رمضان میں اعتکاف میں تھے، جب وہ واپس جانے کےلیے کھڑی ہوئیں تو آپ انہیں رخصت کرنے کے لیے مسجد کے دروازے تک تشریف لے گئے۔

یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف سے ملنے اور اس کے ساتھ گفتگو کرلینے میں کوئی حرج نہیں،نیز اس واقعہ میں مذکور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فعل آپ  کے انتہائی تواضع اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین  کے ساتھ آپ کے حسن معاشرت کی دلیل ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:217

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ