سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(129) روزوں کی فرضیت کا انکار کیے بغیر روزہ چھوڑنا

  • 21634
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 888

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس شخص نے رمضان کے روزہ کی فرضیت کا انکار کیےبغیر روزہ چھوڑدیا اس کا کیا حکم ہے؟اور جولاپروائی برتتے ہوئے ایک سے زیادہ مرتبہ رمضان کے روزے چھوڑدے تو کیا اس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس کسی نے شرعی عذر کے بغیر عمداً رمضان کا روزہ چھوڑدیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا،اس کی وجہ سے وہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کافر قرارنہیں دیا جائے گا،البتہ اس کوچھوڑے ہوئے روزے کی قضا کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی ہوگی۔بے شمار دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کی فرضیت کا انکار کیے بغیر محض سستی ولاپروائی کی بنا پر اگر کوئی شخص ر مضان کا روزہ چھوڑدے تو اس کی وجہ سے وہ کافر شمار نہیں ہوگا،البتہ اگرچھوٹے ہوئے روزوں کی قضا بغیر کسی شرعی عذر کے اس نے دوسرے رمضان تک موخر کردی تو اسے ہرروزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا ہوگا،جیساکہ سوال نمبر17 کے جواب میں گزر چکاہے۔

اسی طرح زکاۃ نہ دینے اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کا مسئلہ بھی ہے، کہ بندہ اگر ان کی فرضیت کا منکر نہ ہوتواس کی وجہ سے وہ کافر نہیں قراردیا جائے گا۔

البتہ اسے پچھلے سالوں کی زکاۃ نکالنی ہوگی اور حج کرنا ہوگا،اور ان فرائض کی ادائیگی میں جوتاخیر ہوئی ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنی ہوگی، کیونکہ اس بارے میں جو شرعی دلائل ہیں وہ عام ہیں،اور اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بندہ اگر زکاۃ اور حج کی فرضیت کا منکر نہ ہوتو ان کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے وہ کافر نہیں قراردیا جائےگا،انہی دلائل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ حدیث بھی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ تارک زکاۃ کوقیامت کے دن اس کے مال کے ذریعہ عذاب دیا جائے گا، پھر جنت یا جہنم کی طرف اس کا ٹھکانا دکھا دیا جائے گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ