السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تارک نماز کے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟اور اگر وہ روزہ رکھے تو کیا اس کا روزہ درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بات یہ ہے کہ عمداً نماز ترک کرنے والا کافر ہے،لہذا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ نہ کرلے اس کاروزہ اور اسی طرح دیگر عبادات درست نہیں،کیونکہ اللہ عزوجل کاارشاد ہے:
﴿ وَلَو أَشرَكوا لَحَبِطَ عَنهُم ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٨٨﴾... سورة الانعام
’’اور اگر انہوں نے شرک کیا ہوتاتو وہ سب اکارت ہوجاتا جو وہ کرتے تھے۔‘‘
نیز اس معنی کی دیگر آیات اور احادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہوجانے کی دلیل ہیں۔
لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ تارک نماز اگر نماز کی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی ولاپروائی کی وجہ سے نماز چھوڑتا ہے،تو اس کا روزہ اوردیگر عبادات برباد نہیں ہوں گی،لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے،یعنی عمداً نماز ترک کرنے والا کافر ہے،بھلے ہی وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو،کیونکہ اس قول پر بے شمار دلائل موجود ہیں، انہیں دلائل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:
’’بندہ کے درمیان اور کفروشرک کے درمیان بس نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طریق سے روایت کیا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی:
’’ہمارے اور ان(کافروں)کے درمیان جو معاہدہ ہے وہ نمازہے،توجس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نیز ائمہ اربعہ(ابوداود، نسائی،ترمذی اور ابن ماجہ) نے بریدہ بن حصین اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اس بارے میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کے احکام اور نماز چھوڑنے کے احکام پرمشتمل ایک مستقل رسالہ میں سیر حاصل گفتگو کی ہے، یہ رسالہ بڑا مفید اور قابل مطالعہ ہے،اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب