السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جن ملکوں میں دن اکیس گھنٹے تک بڑا ہوتا ہے وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں؟ کیا وہ روزہ رکھنے کے لیے کوئی وقت متعین کریں گے؟ اسی طرح جن ملکوں میں دن بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے وہ کیا کریں؟ اور اسی طرح وہ ممالک جہاں دن اور رات چھ چھ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جن ممالک میں دن اور رات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پوری ہو جاتی ہے وہاں کے لوگ دن میں روزہ رکھیں گے۔ خواہ دن چھوٹا ہو یا بڑا اور یہ ان کے لیے الحمد للہ ۔ کفایت کر جائے گا۔ بھلے ہی دن چھوٹا ہو۔ البتہ وہ ممالک جہاں دن اور رات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندر پوری نہیں ہوتی بلکہ رات یا دن چھ چھ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ نماز اور روزہ کے وقت کا اندازہ متعین کر کے اسی حساب سے نماز پڑھیں گے اور روزے رکھیں گے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ظاہر ہونے کے ایام کے بارے میں حکم دیا ہے جس کا پہلا دن ایک سال کے اور دوسرادن ایک ماہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا کہ نماز کے وقت کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لیں۔
سعودی عرب کی ’’مجلس ہئیت کبار علماء‘‘ نے مذکورہ بالا مسئلہ میں غور و فکر کرنے کے بعد ایک قرار داد حوالہ نمبر61،مورخہ 12/4/1398ھ پاس کی ہے جو درج ذیل ہے:
الحمدلله والصلاة والسلام علي رسوله وآله وصحبه وبعد:
مجلس ہئیت کبار علماء کے بارہویں اجتماع منعقدہ ریاض ماہ ربیع الثانی 1398 ہجری میں رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل کا خط حوالہ نمبر555،مورخہ 16/1/1398ھ پیش ہوا جو سویڈن کے شہر مالو کے صدر رابطہ برائے اسلامی تنظیمات کے خط میں وارد موضوع پر مشتمل تھاجس میں صدر محترم مذکور نے یہ وضاحت کی ہے کہ"سکنڈے نیوین"ممالک میں وہاں کے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر موسم گرما میں دن انتہائی لمبا اور موسم سرما میں انتہائی چھوٹا ہے جبکہ وہاں کے شمالی علاقوں میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہیں ہوتا اور موسم سرما میں اس کے برعکس آفتاب طلوع ہی نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ان ممالک میں بسنے والے مسلمان روزہ رکھنے اور افطار کرنے نیز اوقات نماز کی تعیین کی کیفیت جاننا چاہتے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریڑی نے اپنے خط میں اس بارے میں فتوی صادر کرنے کی دراخوست کی ہے تاکہ مذکورہ ممالک کے مسلمانوں کو اس فتوی سے باخبر کر سکیں۔
مجلس ہئیت کبار علماء کے اس اجتماع میں مسئلہ ہذا سے تعلق دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء کا تیار کردہ بیان اور فقہاء سے منقول دیگر نصوص بھی پیش کئے گئے اور ان پر بحث و نظر اور مناقشہ کے بعد مجلس نے درج ذیل بیان جاری کیا:
1۔جن ممالک میں دن اور رات ایک دوسرے سے جدا جدا ہوں بایں طور کہ وہاں فجر طلوع ہوتی ہو اور آفتاب غروب ہوتا ہو البتہ موسم گرما میں دن بہت ہی طویل ہوتا ہو اور اس کے برعکس موسم سرما میں بہت ہی چھوٹا ہو۔ ایسے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہی اوقات میں نماز ادا کریں جو شرعاً متعین اور معروف ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم عام ہے۔
﴿أَقِمِ الصَّلوٰةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلىٰ غَسَقِ الَّيلِ وَقُرءانَ الفَجرِ إِنَّ قُرءانَ الفَجرِ كانَ مَشهودًا ﴿٧٨﴾... سورةالإسراء
’’سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر میں قرآن پڑھنے کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی:
﴿ إِنَّ الصَّلوٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورةالنساء
’’یقیناً نماز مومنوں پر مقرر ہ وقت میں فرض ہے۔‘‘
نیز بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:ہمارے ساتھ دو دن نماز پڑھو چنانچہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا انھوں نے اذان دی پھر آپ نے حکم دیا اور انھوں نے ظہر کی اقامت کہی پھر جبکہ آفتاب ابھی سفید اور بالکل صاف تھا آپ نے حکم دیا اور انھوں نے عصر کی اقامت کہی پھر جب آفتاب غروب ہو گیا تو آپ نے حکم دیا اور انھوں نے مغرب کی اقامت کہی پھر جب آسمان کی سرخی غائب ہوگئی تو آپ نے حکم دیا اور انھوں نے عشاء کی اقامت کہی پھر طلوع فجر کے بعد آپ نے حکم دیا انھوں نے فجر کی اقامت کہی۔
پھر جب دوسرا دن شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا اور انھوں نے ٹھنڈا ہونے پر اقامت کہی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ آفتاب ابھی بلندی پر تھا لیکن پہلے دن سے دیر کر کے پڑھی اور مغرب کی نماز سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزر جانے پر پڑھی اور فجر کی نماز اجالا ہوجانے پر پڑھی پھر فرمایا: نماز کے وقت کے بارے میں سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا۔اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ہوں۔آپ نے فرمایا:تمھاری نمازوں کے اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں (بخاری و مسلم )
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ظہر کا وقت وہ ہے جب آفتاب ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کے مثل ہو جائے۔ اس وقت سے لے کر عصر تک ہے اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ آفتاب میں زردی نہ آجائے اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ ہو جائے اور عشاء کا وقت متوسط رات کے نصف تک ہے اور فجر کا وقت طلوع فجر کے بعد سے لے کر آفتاب طلوع ہونے سے پہلے تک ہے پھر جب آفتاب طلوع ہونے لگے تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ آفتاب شیطان کی دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
ان کے علاوہ اور بھی قولی و فعلی احادیث ہیں جو پانچوں فرض نمازوں کے اوقات کے تعیین کے سلسلے میں وارد ہیں ان احادیث میں دن یا رات کے چھوٹے یا بڑے ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے جب تک کہ نمازوں کے اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ علامتوں کے مطابق ایک دوسرے سے جداجدا ہوں۔ یہ رہا مسئلہ اوقات نماز کی تعیین کا۔
رہی بات ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات کی تعیین کی تو جن ممالک میں دن اور رات ایک دوسرےسے جداجدا ہوں اور ان کا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہو۔وہاں کے مکلف مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ پورے دن یعنی طلوع فجر سے لے کر آفتاب ہونے تک کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے رکے رہیں اور صرف رات میں خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو کھانا پینا اور بیوی سے ہمبستری وغیرہ حلال جانیں کیونکہ شریعت اسلام ہر ملک کے باشندوں کے لیے عام ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى الَّيلِ ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’اور کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے تم کو صاف دکھائی دینے لگے۔‘‘
البتہ وہ شخص جو دن کے طویل ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا آثار و علامات سے یا تجربہ سے یا کسی معتبر ماہر ڈاکٹر کے بتانے سے یا اپنے گمان غالب سے یہ جانتا ہو کہ روزہ رکھنا اس کی ہلاکت کا یا شدید مرض میں مبتلا ہو جانے کا سبب بن سکتا ہے یا روزہ رکھنے سے اس کا مرض بڑھ جائے گا یا اس کی شفایابی کمزور پڑھائے گی تو ایسا شخص روزہ نہ رکھے اور ان کے بدلے دوسرے مہینہ میں جس میں اس کے لیے روزہ رکھنا ممکن ہو قضا کر لے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ... ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
’’جو شخص رمضان کا مہینہ پائے وہ اس کا روزہ رکھے اور جو مریض ہو یا سفر میں ہو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر ے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورةالبقرة
اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...﴿٧٨﴾... سورةالحج
اور اس(اللہ) نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
2۔جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اور موسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن رہتا ہو وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جدا جد ہوں وہاں کے اوقات نماز کے پیش نظر اپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کر لیں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر پانچوں فرض نمازیں ادا کریں کیونکہ اسراء و معراج والی حدیث میں وارد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایک دن اور ایک رات میں پچاس نمازیں فرض کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کرواتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا:
’’اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک دن اور رات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نمازدس کے برابر ہے گویا یہ پچاس نمازیں ہیں۔‘‘
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ علاقہ نجد سے ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جن کا سرپراگندہ تھا ہم ان کی آواز تو سن رہے تھے مگر بات نہیں سمجھ پا رہے تھے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئے وہ آپ سے اسلام کے بارے میں دریافت کر رہے تھے آپ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔‘‘
اس دیہاتی نے سوال کیا کہ کیا ان کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا:
’’نہیں الایه کہ تم نفل پڑھو۔‘‘
نیز انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے وہ بیان کرتے ہیں:
’’ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اس لیے ہماری یہ خواہش ہوتی تھی کہ دیہات سے کوئی سمجھدار شخص آئے اور آپ سے کچھ دریافت کرے۔ اور ہم سنیں چنانچہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ اسے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہمارے پاس آپ کا قاصد پہنچا اور کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو بھیجا ہے آپ نے فرمایا: قاصد نے سچ کہا:اس نے سوال کرتے کرتے کہا کہ آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہم پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں آپ نے فرمایا:اس نے سچ کہا: دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا :ہاں‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو مسیح دجال کے بارے میں بتایا تو انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ وہ کتنے دن زمین پر ٹھہرے گا؟ آپ نے فرمایا:چالیس دن لیکن اس کا ایک دن ایک سال کے برابر ایک دن ایک ماہ کے برابر ایک دن ایک جمعہ (یعنی ایک ہفتہ) کے برابراور باقی دن عام دنوں کے برابر ہوں گے۔ سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا جو دن ایک سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ایک دن کی نمازیں ہمارے لیے کافی ہوں گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ ایک ایک دن کا اندازہ کر لیا کرنا۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ظاہر ہونے کے وقت ایک سال کے برابر والے دن کو ایک دن نہیں شمار فرمایا:جس میں صرف پانچ نمازیں کافی ہوں بلکہ ہر چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض قراردیں اور یہ حکم دیا کہ لوگ اپنے اپنے ملکوں میں عام دنوں کے اوقات کے اعتبار سے نمازوں کے اوقات متعین کر لیں۔
لہٰذا ان ممالک کے مسلمان جن کے تعلق سے نمازوں کے اوقات کے تعیین کا مسئلہ دریافت کیا گیا ہےان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قریب ترین ملک جہاں دن اور رات ہر چوبیس گھنٹے کے اندر مکمل ہو جاتے ہوں اور شرعی علامتوں کے ذریعہ پنج وقتہ نمازوں کے اوقات معروف ہوں اس ملک کے اوقات نماز کی روشنی میں نمازوں کے اوقات متعین کر لیں۔
اسی طرح رمضان کے روزے کا مسئلہ بھی ہے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں دن اور رات جدا جدا ہوں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر ان کی گردش مکمل ہو جاتی ہو اس ملک کے اوقات کے اعتبار سے ماہ رمضان کی ابتدا اور اس کے اختتام اوقات سحرو افطار نیز طلوع فجر اور غروب آفتاب وغیرہ کے اوقات متعین کریں اور روزہ رکھیں جیسا کہ مسیح دجال سے متعلق حدیث میں بات گزرچکی ہے اور جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس بڑے دن میں اوقات نماز کی تعیین کرنے کی کیفیت کی جانب رہنمائی فرمائی ہے اور ظاہر بات ہے کہ اس مسئلہ میں روزہ اور نماز کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب