سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(104) استعمال اور غیر استعمال زیورات پر زکوٰۃ

  • 21609
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1519

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وقت حاضر میں استعمال اور غیر استعمال کے لیے تیار شدہ زیورات کی متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں جیسے الماس اور پلاٹینم وغیرہ تو کیا ان میں زکاۃ ہے؟ اور اگر یہ زیورات زینت و آرائش کے لیے یا استعمال کے لیے برتن کی شکل میں ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟ مستفید فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو اجرو ثواب سے نوازے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ زیورات اگر سونے اور چاندی کے ہوں اور مقدار نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر سال کی مدت گزر جائے تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق ان میں زکاۃ ہے خواہ وہ پہننے کے لیے ہوں یا عاریۃ دینے کے لیے تیار کرائے گئے ہوں جیسا کہ اس بارے میں صحیح احادیث وارد ہیں لیکن اگر یہ زیورات سونے اور چاندی کے نہ ہوں بلکہ الماس اور عقیق (مونگے)وغیرہ سے بنے ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں الایہ کہ ان سے تجارت مقصود ہو تو اس صورت میں یہ تجارتی سامان کے حکم میں ہوں گے اور دیگر سامان تجارت کی طرح ان میں بھی زکاۃ واجب ہو گی۔

رہا سونے اور چاندی کے برتن بنوانے کا مسئلہ تو زینت و آرائش کے لیے بھی سونے اور چاندی کے برتن بنوانا جائز نہیں کیونکہ یہ کھانے پینے کے لیے انہیں استعمال کرنے کا ذریعہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح حدیث ہے:

’’سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور نہ ان کی تھالیوں میں کھاؤ کیونکہ یہ کفار کے لیے دنیا میں ہیں اور تمھارے لیے آخرت میں۔‘‘(متفق علیہ)

اگر کسی نے سونے اور چاندی کے برتن بنوابھی لیے تو اس کو ان کی زکاۃ دینی ہو گی ساتھ ہی اللہ عزوجل سے توبہ کرنی ہو گی اور ان برتنوں کو زیورات یا اسی جیسی چیزوں سے بدلنا ہوگا جو برتن کے مشابہ نہ ہوں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:173

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ