السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی وفات ہوگئی اور اس نے اپنے پیچھے مال اور کچھ یتیم چھوڑے کیا اس مال میں زکاۃ ہے؟ اور اگر ہے تو کون ادا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یتیموں کے مال میں بھی زکاۃ واجب ہے خواہ وہ نقدی روپے پیسے ہوں یا تجارتی سامان ہوں،یا چرکر پیٹ بھرنے والے چاپائے ہوں یا وہ غلے اور پھل ہوں جن میں زکاۃ واجب ہوتی۔ ہے یتیم کے سر پرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پر ان کے مال کی زکاۃ ادا کرے اگر ان یتیموں کا ان کے وفات یا فتہ باپ کی طرف سے کوئی سر پرست نہ ہوتو معاملہ شرعی عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ عدالت کی طرف سے یتیموں کا کوئی سر پرست متعین کیا جا سکے جو ان کی اور ان کے مال کی نگہداشت کرے اور سر پرست کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور یتیموں اور ان کے مال کی بھلائی کے لیے کام کرے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ اليَتـٰمىٰ قُل إِصلاحٌ لَهُم خَيرٌ...﴿٢٢٠﴾... سورة البقرة
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم وہ آپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ ان کی اصلاح کرنا ہی اچھا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَلا تَقرَبوا مالَ اليَتيمِ إِلّا بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ حَتّىٰ يَبلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوفُوا الكَيلَ وَالميزانَ بِالقِسطِ لا نُكَلِّفُ نَفسًا إِلّا وُسعَها وَإِذا قُلتُم فَاعدِلوا وَلَو كانَ ذا قُربىٰ وَبِعَهدِ اللَّـهِ أَوفوا ذٰلِكُم وَصّىٰكُم بِهِ لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ ﴿١٥٢﴾... سورةالانعام
’’اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وه اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وه شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘
اس موضوع پر اور بھی بہت سی آیات ہیں۔
یتیم کے مال میں سال پورا ہونے کا اعتبار اس وقت سے ہو گا جب ان کے والد کی وفات ہوئی ہے کیونکہ وفات ہی سے مال ان کی ملکیت میں داخل ہوا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب