سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) دوسرے ممالک کے مجاہدین کو زکوٰۃ دینا

  • 21602
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 649

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بوسنیا اور ہرزگونیا کے مسلم مجاہدین اور انہی جیسے دیگر مجاہدین کو زکاۃ کا مال دینے میں بعض لوگوں کو تردو ہوتا ہے اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟اور کیا اس وقت ان مجاہدین کو زکاۃ دینا زیادہ بہتر ہے یا دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی مراکز چلانے والوں کو؟ یا خود اپنے ملک کے فقراء کو دینا زیادہ بہتر ہے بھلے ہی اول الذکر دونوں صنف ان سے زیادہ ضرور تمند ہوں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بوسنیا اور ہرزگونیا کے مسلمان زکاۃ کے مستحق ہیں کیونکہ وہ فقرو فاقہ سے دوچار ہیں ۔جہاد کر رہے ہیں ان پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ مالی امداد اورتالیف قلب کے ضرورت مند ہے اس لیے وہ اور انہی جیسے دیگر مسلم مجاہدین زکاۃ کے مستحق ترین لوگوں میں سے ہیں اسی طرح اسلامی مراکز چلا نے والے جو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اگر غریب ہو ں تو وہ بھی زکاۃ کے مستحق ہیں اور اسی طرح دنیا کے عام مسلم فقراء بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ مالدار حضرات ان سے ہمداری و مہربانی کا برتاؤ کریں تاکہ ان کی دلجوئی ہو اور وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں بشرطیکہ انہیں جو کچھ دیا جائے وہ ثقہ اور مانت دار اشخاص کے ذریعہ ان تک پہنچ جائے یہ لوگ زکاۃ کے علاوہ مال کے ذریعہ بھی ہمدردی و مہربانی کئے جانے کے حقدار ہیں۔

البتہ شہر کے فقراء جہاں زکاۃ نکالی جا رہی ہے اگر ان کی ضروریات دوسرے ذرائع سے پوری نہ ہو سکے تو دوسروں کی بنسبت وہ زکاۃ کے زیادہ حقدارہیں۔ کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب انہیں یمن کی جانب روانہ کیا تو فرمایا:

’’انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ لاالٰہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں پس اگر وہ تمھاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ایک دن اور رات میں کل پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ تمھاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہی کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘ (متفق علیہ)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:165

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ