السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس فقیر کو زکاۃ دی جانی چاہیے مختلف وقت میں اس کے فقرو غربت کا اندازہ یکساں نہیں ہوتا۔ آخر اس کا معیار کیا ہے؟ اور جب زکاۃ دینے والے پر یہ واضح ہو جائے کہ اس نے زکاۃ غیر مستحق کو دے دی ہے تو کیا وہ دوبارہ زکاۃ نکالے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقیر کو اتنی زکاۃ دی جائے جو اس کے لیے سال بھر کے لیے کافی ہو۔ اور زکاۃ دینے والے کو اگر یہ پتہ چل جائے کہ اس نے جسے زکاۃ دی ہے وہ فقیر نہیں ہے تو اس پر قضا نہیں بشرطیکہ زکاۃ لینے والا ظاہر میں فقیر ہو جیسا کہ اس بارے میں صحیح حدیث وارد ہے وہ یہ کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک شخص نے کسی کو فقیر سمجھ کر زکاۃ دیا پھر خواب میں دیکھا کہ وہ تو مالدار ہے چنانچہ اس نے کہا:اے اللہ! تیری ہی تعریف ہے میری زکاۃ تو ایک مالدار لے گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو بیان فرمانے کے بعد اسے برقرار رکھا اور بتایا کہ اس شخص کی زکاۃ قبول ہوگئی۔
اور یہ مقررہ اصول ہے کہ ہم سے پہلی امت کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے جب تک کہ ہماری شریعت گذشتہ شریعت کے خلاف کوئی حکم نہ پیش کردے۔اور اس لیے بھی مذکورہ صورت میں زکاۃ کی قضا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص زکاۃ مانگنے کے لیے آئے آپ نے انہیں توانا وتندرست دیکھا تو فرمایا:
’’اگر تم دونوں چاہتے ہی ہو تو میں تمھیں دیدوں لیکن یاد رکھو کہ مالدار کے لیے اور کمانے کی طاقت رکھنے والے توانا شخص کے لیے زکاۃ کے مال میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘
اور اس لیے بھی کہ ہر پہلو سے فقیر کی ضرورت کا جاننا مشکل کام ہے لہٰذا اس کے صرف ظاہری حالات کو دیکھا جائے گا اور اپنے کو فقیر باور کرانے سے اسے زکاۃ دیدی جائے گی۔ بشرطیکہ زکاۃ دینے والے کو اس کے برخلاف کوئی بات معلوم نہ ہو اور اگر وہ بظا ہر توانا اور کمانے پر قادر نظر آرہا ہے تو مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اسے شرعی مسئلہ بھی بتا دیا جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب