سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) زکوٰۃ کی وجہ سے مویشی کو باہم ملانا

  • 21598
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 736

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ جائز ہے کہ زکاۃ کی وجہ سے دویا تین آدمی اپنے اپنے مویشی باہم ملا لیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکاۃ سے بھاگنے کے لیے یا مقدار واجب سے کم دینے کے لیے زکاۃ کے مال کو ایک ساتھ ملا لینا یا الگ کردینا جائز نہیں صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’صدقہ کے ڈر سے الگ الگ مال کو اکٹھا نہ کیا جائے اور یکجا مال کو الگ نہ کیا جائے۔‘‘(صحیح بخاری)

لہٰذا کسی کے پاس اگر چالیس بکریاں ہوں اور زکاۃ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ انہیں الگ الگ کردے تو زکاۃ اس سے ساقط نہیں ہو گی بلکہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ کو ساقط کرنے کی حیلہ جوئی کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار بھی ہوگا۔

اسی طرح زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ مال کو اکٹھا کرنا بھی جائز نہیں مثلاً کسی کے پاس بکریاں یا اونٹ یا گائیں ہوں جو نصاب زکاۃ کو پہنچ گئی ہوں اور وہ انہیں دوسرے کی بکریوں یا ونٹ یا گایوں کے ساتھ ملا دے تاکہ ان دونوں کو کم مقدار میں زکاۃ دینی پڑے یعنی ان دونوں اشخاص کا اپنے اپنے مال کو باہم ملا لینا کسی معقول بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ زکاۃ کے محصل کے آنے کی صورت میں ان پر کم مقدار میں زکاۃ واجب ہو تو ایسی صورت میں ان سے واجبی زکاۃ ساقط نہیں ہو گی۔بلکہ اس حیلہ کے سبب وہ دو کے دونوں گنہگار ہوں گے اور انہیں پوری زکاۃ نکالنی ہو گی۔

مثلاً ایک شخص کے پاس چالیس بکریاں تھیں اور دوسرے کے پاس ساٹھ بکریاں محصل کے آنے پر دونوں نے اپنی اپنی بکریاں ملا لیں تاکہ زکاۃ میں صرف ایک بکری واجب ہو۔ تو ایسا کرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ان سے باقی واجب ساقط ہو گا کیونکہ یہ حرام حیلہ ہے بلکہ انہیں زکاۃ میں ایک دوسری بکری نکال کر فقراء کو دینی ہوگی اور اس بکری کے پانچ حصوں میں سے دوحصے (5/2)چالیس بکری والے کے ذمہ ہوں گے اور تین حصے (5/3)ساٹھ بکری والے کے ذمہ۔ اسی طرح جو بکری انھوں نے محصل کے حوالہ کی ہے وہ بھی اسی حساب سے تقسیم ہو گی۔ ساتھ ہی ان دونوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ اور آئندہ اس طرح کے حیلےبہانے نہ کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔

لیکن اگر دو شخص باہمی تعاون کے لیے اپنے اپنے مال ملالیں۔کسی واجب کے ساقط کرنے یا مقدار واجب کو کم کرنے کا حیلہ بہانہ ان کے پیش نظر نہ ہو۔ تو ایسا کر لینے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شرکت کے جو شروط و ضوابط اہل علم کی کتابوں میں مذکورہیں وہ پورے ہو رہے ہوں کیونکہ مذکورہ بالا صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

’’جو مال دوشریکوں کے درمیان ہو تو وہ آپس میں برابر ،برابراپنے اپنے حصہ کے مطابق زکاۃ اداکریں گے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:160

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ