سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) امام کے پیچھے قراءت کرنا

  • 21557
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1599

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام کے پیچھے قراءت کے سلسلہ میں علماء کی رائیں مختلف ہیں اس سلسلہ میں صحیح کیا ہے؟ اور کیا مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے؟ اور اگر امام اپنی قراءت کے دوران سکتوں کا اہتمام نہ کرے تو پھر مقتدی سورۃ فاتحہ کب پڑھے گا؟ اور کیا امام کے لیے سورہ فاتحہ سے فارغ ہونے کے بعد سکتہ کرنا مشروع ہے تاکہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درست بات یہ ہے کہ مقتدی کے لیے تمام نمازوں میں خواہ سری ہوں یا جہری سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ حدیث عام ہے۔

’’جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔‘‘ (متفق علیه)

اور وہ حدیث بھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے دریافت فرمایا:

’’شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآءت کرتے ہو؟لوگوں نے جواب دیا:

ہاں آپ نے فرمایا:سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔‘‘ (مسند احمد بسند صحیح)

مشروع یہ ہے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ کو امام کی قرآءت کے دوران سکتوں میں پڑھےاگر امام کی قرآءت میں سکتوں کا اہتمام نہ ہو تو امام کی قرآءت کےدوران ہی پڑھ لے۔ پھر خاموش ہو جائے۔

رہیں وہ دلیلیں جن سے امام کی قرآءت کے وقت خاموش رہنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے تو ان کے عموم سے سورۃ فاتحہ کا حکم مستثنیٰ ہے لیکن اگر کوئی مقتدی بھول کر یا لا علمی سے یا غیر واجب سمجھ کر اسے چھوڑ دے تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کے لیے امام کی قرآءت کافی ہو گی اور نماز صحیح ہو جائے گی اسی طرح اگر کوئی شخص بحالت رکوع جماعت میں شامل ہو تو اس کی یہ رکعت پوری ہو جائے گی اور سورۃ فاتحہ کی قرآءت کا وجوب اس سے ساقط ہےہو جائے گا کیونکہ اس نے قرآءت کا وقت نہیں پایا۔ جیسا کہ ابو بکرہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع میں تھے اتنے میں یہ آئے اور صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انھوں نے رکوع کر لیا۔ پھر صف میں شامل ہوئے آپ نے سلام پھیرنے کے بعد انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تمھارے شوق کو زیادہ کرے مگر آئندہ ایسا نہیں کرنا۔‘‘(صحیح بخاری)

اس واقعہ میں آپ نے انہیں صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع میں جانے پر تنبیہہ فرمائی مگر اس رکعت کی قضا کا حکم نہیں دیا۔

مذکورہ بالاروایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور امام رکوع کی حالت میں ہو تو اسے صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے صبرو اطمینان کے ساتھ صف میں شامل ہو نا چاہیےاگرچہ رکوع فوت ہو جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’جب نماز کے لیے آؤ تو سکون و وقارکے ساتھ چل کر آؤ جو ملے پڑھ لو۔ اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‘‘(متفق علیہ)

رہی یہ حدیث کہ ’’جس کے لیے امام ہو تو امام کی قرآءت اس کی قرآءت ہے۔‘‘ تو یہ اہل علم کے نزدیک ضعیف اور ناقابل حج ہے اور اگر صحیح بھی مان  لیں تو سورۃ فاتحہ کی قرآءت اس سے مستثنیٰ ہوگی تاکہ حدیثوں کے درمیان تطبیق ہو جائے۔

رہا امام کا سورۃ فاتحہ پڑھ لینے کے بعد مقتدیوں کے لیے سکتہ کرنا تو میرے علم کے مطابق اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ان شاء اللہ مسئلہ میں وسعت ہے سکتہ کرے یا نہ کرے دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں میرے علم کے مطابق اس سلسلہ میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے البتہ آپ سے دو سکتے ثابت ہیں۔ایک تکبیر تحریمہ کے بعد جس میں دعائے ثناء پڑھی جاتی ہے اور دوسرا قرآءت سے فارغ ہونے کے بعد اور رکوع جانے سے پہلے اور یہ ہلکا سا سکتہ ہے جو قرآءت اور تکبیر کے درمیان فصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:114

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ