السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
موجودہ دور میں بہت سے مسلمان یہاں تک کہ بعض اہل علم بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں سستی برتتے ہیں اور دلیل میں یہ کہتے ہیں کہ بعض علماء جماعت کے وجوب کے قائل نہیں سوال یہ ہےکہ نماز باجماعت کا حکم کیا ہے؟ اور ایسے لوگوں کے لیے آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق مسجد میں مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا ہر اس مرد پر واجب ہے جو اذان سنتا اورجماعت میں حاضر ہونے کی قدرت رکھتا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’جو شخص اذان سن کربلا کسی عذر کے مسجد نہ آئے تو اس کی نماز نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس حدیث میں مذکور’’عذر‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے؟تو انھوں نے فرمایا: خوف یا مرض۔
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے مسجد لے جانے والا کوئی نہیں تو کیا میرے لیے اجازت ہے کہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟آپ نے پوچھا : کیا تم اذان سنتے ہو؟ کہا:ہاں آپ نے فرمایا: پھر تو مسجد میں آکر نماز پڑھو۔‘‘
اور صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں اور نماز قائم کی جائے اور کسی شخص کو مقرر کر دوں جو لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں کچھ لوگوں کو لے کر جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹھے ہوں۔ ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے ساتھ ہی ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔‘‘
یہ ساری حدیثیں نیز اس مفہوم کی دیگر احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نماز باجماعت مردوں کے حق میں واجب ہے اور جماعت سے پیچھے رہنے والا عبرتناک سزا کا مستحق ہے اگر مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا واجب نہ ہوتا تو جماعت سے پیچھے رہنا والا سزا کا مستحق نہ ہوتا ۔
نیز مسجد میں باجماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اس لیے واجب ہے کہ یہ دین اسلام کا ایک عظیم ظاہری شعار ہے اور مسلمانوں کے لیے باہمی تعارف الفت و محبت کے حصول اور بغض و عداوت کے خاتمہ کا سبب ہے اور اس لیے بھی کہ جماعت سے پیچھے رہنا منافقوں کی مشابہت ہے پس ہر شخص پر جماعت کی پابندی واجب ہے اور اس سلسلہ میں کسی کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ جو قول شرعی دلائل کے خلاف ہو وہ متروک اور ناقابل اعتماد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورةالنساء
’’پس اگر تم کسی معاملہ میں باہم اختلاف کر بیٹھو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالہ کردو۔ اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ...﴿١٠﴾... سورةالشورىٰ
’’اور جس بات میں تمھارا اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ اللہ کے حوالے ہے۔‘‘
نیز صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد ہے کہ منافق یا بیمار کے علاوہ ہم میں سےکوئی شخص باجماعت نماز سے پیچھے نہیں رہتا تھا۔یہاں تک کہ معذور شخص بھی دوآدمیوں کے کندھوں کے سہارے لایا جاتا اور صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔
یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا جماعت کی نماز کے لیے شوق و اہتمام کہ ان میں سے بیمار اور معذور شخص بھی جماعت سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتا تھا بلکہ دوآدمیوں کے کندھوں کے سہارے لایا جاتا اور صف میں کھڑا کر دیا جاتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب