سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) نماز میں سستی کرنا

  • 21534
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 2498

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موجودہ دور میں بہت سے لوگ نماز کی ادائیگی میں سستی برتتے ہیں،اور بعض توایسے ہیں جوبالکل پڑھتے ہی نہیں،ایسے لوگوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟نیز ان لوگوں کے تعلق سے ایک مسلمان اور خصوصاً اس کے والدین،اہل وعیال اور دیگر عزیز واقارب پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں سستی برتنا بہت بڑا گناہ نیز منافقوں کی خصلت ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّ المُنـٰفِقينَ يُخـٰدِعونَ اللَّهَ وَهُوَ خـٰدِعُهُم وَإِذا قاموا إِلَى الصَّلو‌ٰةِ قاموا كُسالىٰ يُراءونَ النّاسَ وَلا يَذكُرونَ اللَّهَ إِلّا قَليلًا ﴿١٤٢﴾...سورة النساء

’’بے شک منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہیں‘ حالانکہ اللہ نے ہی انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے‘اور جب یہ نماز کے لیے کھڑے ہیں تو الکساتے ہوئے'لوگوں کو دکھاتے ہیں‘ اوریہ اللہ کوکم ہی یاد کرتے ہیں۔‘‘

نیز منافقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـٰتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَبِرَسولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلو‌ٰةَ إِلّا وَهُم كُسالىٰ وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـٰرِهونَ ﴿٥٤﴾... سورةالتوبة

’’کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں۔‘‘

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’منافقوں پر سب سے گراں عشاء اور فجر کی نماز ہے،اور اگرانہیں ان کے اجروثوب کا علم ہوجائے تو کبھی پیچھے نہ رہیں گے،چاہے سرین کے بل گھسٹ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے۔‘‘(متفق علیه)

لہذا ہر مسلمان مرد وعورت پر سکون واطمینان ،خشوع وخضوع اور حضور قلب کے ساتھ وقت پر پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی واجب ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢﴾... سورة المؤمنون

’’فلاح یاب ہوگئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں۔‘‘

اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی نماز غلط طریقہ سے ادا کی اور اس میں اطمینان وسکون ملحوظ نہیں رکھا تو  آپ نے انہیں نماز دہرانے کا حکم دیا۔

مردوں کے لیے خاص طور پر مسجد میں مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’جو شخص اذان سن کر بلاعذرمسجد نہ آئے اس کی نماز درست نہیں‘‘(اسے ابن ماجہ،دارقطنی،ابن حبان اور حاکم نے بسند صحیح روایت کیا ہے)

اور جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے دریافت کیا گیا کہ عذر کیا ہے؟تو فرمایا:خوف یا بیماری۔

اسی طرح صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے مسجد لے جانے والا کوئی نہیں،تو کیا میرے لیے اجازت ہے کہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھ لیا کروں؟آپ نے انہیں اجازت دیدی،مگرجب وہ واپس چلے تو پھر انہیں بلایا اورپوچھا:کیا تم اذان سنتے ہو؟جواب دیا:ہاں،آپ نے فرمایا:پھر تو مسجد میں آکر ہی نماز پڑھو۔

نیز ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں اور نماز قائم کی جائے اور کسی شخص کو مقرر کردوں جو لوگوں کو نماز پڑھائے،پھر میں کچھ لوگوں کو لےکرجن کے ساتھ لکڑیوں کے گھٹے ہوں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے،اور ان کے ساتھ ان کے  گھروں کو آگ لگادوں۔‘‘(متفق علیه)

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت مردوں کے حق میں واجب ہے،اور جماعت سے پیچھے رہنے والا عبرتناک سزا کا مستحق ہے،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔(آمین)

رہا سرے سے نماز ہی چھوڑ دینا،چاہے کبھی کبھار ہی کیوں نہ ہو،توعلماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ کفر اکبر ہے بھلے ہی وہ نماز کے وجوب کا منکر نہ ہو،اور اس حکم میں مرد وعورت دونوں یکساں ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’آدمی کے اور کفر وشرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔‘‘(صحیح مسلم)

ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:

’’ہمارے اور ان(کافروں) کے درمیان نماز کا فرق ہے،تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔‘‘

(اس حدیث کو امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  اور ائمہ سنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

نیز اس مفہوم کی اور بھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔

مگر جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو بھلے ہی وہ نماز پڑھتا ہو،تو اہل علم کے اجماع کے مطابق وہ کافر ہے۔اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس بری خصلت سے محفوظ رکھے۔آمین

تمام مسلمانوں کے لیے باہم حق بات کی نصیحت کرنا نیز نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے،چنانچہ جو شخص جماعت سے پیچھے رہتا،یا نماز میں سستی کرتا،یا بعض اوقات بالکل نماز پڑھتا ہی نہ ہو اسے اللہ کے غضب وعقاب سے ڈرانا چاہیے،خصوصاً اس کے ماں،باپ،بھائی،بہن اورگھر والوں کو اسے برابر نصیحت کرتے رہنا چاہیے،یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آجائے،ایسے ہی اگر عورتیں بھی نماز میں سستی کریں یا چھوڑ دیں ،تو انہیں بھی نصیحت کرتے ہوئے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عقاب سے ڈرانا چاہیے،بلکہ نصیحت نہ قبول کرنے کی صورت میں ان کا بائیکاٹ کرنا اور ان کے ساتھ مناسب تادیبی کاروائی کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہی باہمی تعاون اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا تقاضا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قراردیا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَيُقيمونَ الصَّلو‌ٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكو‌ٰةَ وَيُطيعونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ أُولـٰئِكَ سَيَرحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٧١﴾... سورةالتوبة

’’مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو،اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھیں تو انھیں مارو اور ان کے بستر علیحدہ کردو۔‘‘

مذکورہ حدیث میں جب سات سال کے بچوں اور بچیوں کو نماز کا حکم،اور دس برس کی عمر میں نماز چھوڑنے پرمارنے کا حکم دیا جارہا ہے تو بالغ شخص کو نماز کا حکم دینا،نیز سستی وکوتاہی پر نصیحت کرتے ہوئے اس کے ساتھ مناسب تادیبی کاروائی کرنا بدرجہ اولیٰ واجب ہوگا۔

آپس میں حق بات کی تلقین اور حق کی راہ میں پیش آمدہ مصائب پر صبروتحمل ضروری ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالعَصرِ ﴿١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ ﴿٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ ﴿٣﴾... سورۃالعصر

’’زمانے کی قسم (1) بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے (2) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘

اور جو شخص بالغ ہوجانے کے بعد نماز نہ پڑھے اور نہ ہی نصیحت قبول کرے،تو اس کا معاملہ شرعی عدالت میں پیش کیا جائے گا ،تاکہ اس سے توبہ کرائی جائے،اگر توبہ کرکے راہ راست پر آجاتا ہے تو ٹھیک،ورنہ اسے قتل کردیاجائے گا،دعاہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حالات درست فرمائے، انہیں دین کی سمجھ دے، نیکی وتقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے،بھلی بات کاحکم دینے، بری بات سے روکنے،حق بات کی تلقین اور راہ حق میں پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:83

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ