السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ نماز فجر اتنی تاخیر سے پڑھتے ہیں کہ بالکل اجالا ہوجاتا ہے، اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں ’’نماز فجر اجالا ہوجانے پر پڑھو‘‘یہ اجر عظیم کا باعث ہے’’کیا یہ حدیث صحیح ہے؟نیز اس حدیث کے درمیان اور اس حدیث کے درمیان جس میں اول وقت میں نماز پڑھنے کا حکم ہے‘‘تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ بالا حدیث صحیح ہے جو مسند احمد اور سنن اربعہ میں بروایت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے،یہ حدیث نہ تو ان احادیث صحیحہ کے معارض ہے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلس(اندھیرے)میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے،اور نہ ہی اس حدیث کے مخالف ہے جس میں اول وقت پر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔بلکہ جمہور اہل علم کے نزدیک اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ نماز فجر میں اتنی تاخیر کی جائے کہ فجر واضح ہوجائے اور پھر غلس(اندھیرے) کے زائل ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لی جائے،جیسا کہ آپ کامعمول تھا،البتہ مزدلفہ میں فجر طلوع ہوتے ہی پڑھنا افضل ہے، کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایسا ہی کیا تھا۔
اس طرح نماز فجر کے وقت کے سلسلہ میں وارد تمام حدیثوں کے درمیان تطبیق ہو جاتی ہے،نیز یہ اختلاف محض افضلیت میں ہے،ورنہ نماز فجر کو آخیر وقت تک موخرکرنا بھی جائز ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ہے۔‘‘(صحیح مسلم ،بروایت عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالیٰ عنه )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب