سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) جادو اور اس كا علاج

  • 21518
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1642

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موجودہ دور میں جادو کا استعمال اور جادوگروں کے پاس آنا جانا کثرت سے ہو رہاہے،اس کا کیا حکم ہے؟اور سحر زدہ شخص کے علاج کا جائز طریقہ کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جادو،ہلاک کردینے والے کبیرہ گناہوں میں سے ہے،بلکہ یہ نواقض اسلام میں سے ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ وَما كَفَرَ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هـٰروتَ وَمـٰروتَ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ وَلَبِئسَ ما شَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم لَو كانوا يَعلَمونَ ﴿١٠٢﴾... سورة البقرة

’’اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وه لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے، اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پرجو اتارا گیا تھا، وه دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وه سیکھتے جس سے خاوند وبیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وه بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لوگ وه سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے، اور وه بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وه بدترین چیز ہے جس کے بدلے وه اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔‘‘

مذکورہ بالادونوں آیتوں میں اللہ نے یہ خبر دی ہے کہ شیطان لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے،اور لوگ اسے سیکھ کر کافر ہوجاتے تھے،اور یہ بتایا ہے کہ دونوں فرشتے(ہاروت وماروت) جسے بھی جادو سکھلاتے تھے اسے پہلے یہ بتلادیتے تھے کہ ہم آزمائش ہیں،اور ہم جو سکھلاتے ہیں وہ کفر ہے۔

اور اللہ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جادو سیکھنے والے ایسی چیز  سیکھتے ہیں جن میں ان کا فائدہ نہیں،نقصان ہی نقصان ہے،اور ان کے لیے اللہ کے یہاں آخرت میں خیر کا کوئی حصہ نہیں۔

اور یہ بھی بیان کیاہے کہ جادو گر اپنے جادوسے میاں اوربیوی کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں اور وہ اللہ کے’’اذن‘‘ کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔

یہاں"اذن" سے مراد اذن شرعی نہیں بلکہ اذن کونی وقدری ہے،کیونکہ کائنات میں جتنی چیزیں واقع ہوتی ہیں وہ سب اللہ کے قدری اذن سے ہوتی ہے،اور اس کی بادشاہت میں کوئی ایسی چیز ہرگز واقع نہیں ہوسکتی جسے وہ کون وقدر کے لحاظ سے نہ چاہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیاہے کہ جادو ایمان اور تقویٰ کی ضد ہے۔

مذکورہ بیان سے معلوم ہواکہ جادوکفر اور ضلالت ہے،اورجادو کرنے والا اگر اسلام کا مدعی ہے تو وہ اسلام سے خارج ہے،چنانچہ صحیحین میں ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’سات مہلک گناہوں سے بچو،لوگوں نے کہا وہ کیا ہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک،جادو،اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کاناحق قتل،سودخوری،یتیم کامال کھانا،لشکرکشی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا،اورپاکدامن،بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔‘‘

اس صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بیان فرمایاہے کہ شرک اور جادو سات مہلک گناہوں میں سے ہیں،اور شرک ان  میں بڑا ہے،کیونکہ یہ تمام گناہوں میں سب سے بڑا ہے،اور جادو بھی انہی میں سے ہے،یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے  شرک کے ساتھ ذکر کیا ہے،کیونکہ جادو گروں کی جادو تک جو رسائی ہوتی ہے وہ شیطانوں کی عبادت،نیز دعا،ذبح،نذراور استعانت وغیرہ جیسی عبادتوں کے ذریعہ ان کا تقرب حاصل کرنے سے ہی ہوتی ہے،چنانچہ امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے کوئی گرہ لگائی پھراس میں پھونکا اس نے جادو کیا،اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا،اور جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے حوالے کردیاگیا۔‘‘

یہ حدیث سورہ فلق میں اللہ کے قول "وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ"کی تفسیر ہے، مفسرین کا کہنا ہے کہ نَّفَّاثَاتِ سے مراد وہ جادو گرنیاں ہیں جو لوگوں کو اپنے ظلم واذیت کا نشانہ بنانے کی غرض سے شیطانوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے گر ہیں لگاتی اور ان میں شرکیہ کلمات پڑھ کر پھونکتی ہیں۔

جادوگر کے حکم کے بارے میں اہل علم کایہ اختلاف ہے کہ اس سے توبہ کرواکے اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی،یا جب اس کے سلسلہ میں جادو کا ثبوت مل جائے تو بغیر توبہ کروائے ہر حال میں اسے قتل کردیا جائے گا؟اور یہی دوسرا قول ہی درست ہے،کیونکہ جادوگر کا وجود اسلامی معاشرہ کے لیے ضرررساں ہے جبکہ وہ عموماً سچی توبہ نہیں کرتے،نیز اس کے باقی رہنے میں مسلمانون کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

یہ قول اختیار کرنے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین میں دوسرے خلیفہ ہیں،جن کی سنت کی اتباع کرنے کا رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیاہے انہوں نے بغیر توبہ کروائے جادوگروں کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا۔

نیز وہ روایت بھی ہے جسے امام ترمذی نے جندب بن عبداللہ البجلی یا جندب الخیر ازدی سے مرفوعاً اور موقوفاً روایت کیاہے:

’’جادوگر کی سزاتلوار سے اس کی گردن ماردینا ہے۔‘‘

مگر محدثین کے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ یہ جندب پر موقوف ہے۔

ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے بارے میں ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی ایک لونڈی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا جس نے ان پر  جادو کردیا تھا۔چنانچہ توبہ کروائے بغیر  ہی وہ قتل کردی گئی۔

امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ توبہ کروائے بغیر جادو گر کو قتل کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے تین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورحفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے ثابت ہے۔

مذکورہ بیان سے یہ معلوم ہواکہ جادو گر کے پاس جانا،ان سے کوئی چیز پوچھنا اوران کی بتائی ہوئی بات کی تصدیق کرناجائز نہیں،جس طرح کاہنوں اورنجومیوں کے پاس جانا جائز نہیں،نیز جب کسی کے بارے میں جادو کا استعمال اس کے اقرار سے یا شرعی دلائل سے ثابت ہوجائے تو توبہ کروائے بغیر اس کاقتل کردینا واجب ہے۔

رہاجادو کا علاج،تو یہ مشروع طورپر جھاڑ پھونک اور جائز ونفع بخش دواؤں سے کیا جائے گا،اور اس کا ایک بہترین علاج یہ ہے کہ سحر زدہ شخص پر سورۃ فاتحہ،آیت الکرسی،سورہ اعراف،یونس اور طہٰ وغیرہ میں سحر سے متعلق واردآیتوں،نیزقل یاایھاالکافرون،قل ھو اللہ احد،قل اعوذ برب الفلق،اور قل اعوذبرب الناس وغیرہ پڑھ کر دم کیا جائے،مستحب یہ ہے کہ آخر الذکر تین سورتیں درج ذیل صحیح ومشہور دعاکے ساتھ ساتھ تین تین بارپڑھی جائیں،جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مریضوں کے علاج کے لیے اپنی دعا میں پڑھا کرتے تھے،اور وہ دعا یہ ہے:

"اللَّهُمَّ أَذْهِبْ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِي ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا "

’’اے اللہ!لوگوں کے مالک،تو بیماری دور کردے اور شفا دیدے،تو ہی شفا دینے والا ہے،تیرے شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں،ایسی شفا جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘

نیز وہ دعا پڑھے جس کے ذریعہ جبرئیل  علیہ السلام  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر دم کیاتھا،اور وہ دعا یہ ہے:

"بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ"

’’اللہ کے نام کے ساتھ میں تم پر دم کرتا ہوں،اللہ تمھیں ہر تکلیف دہ چیز سے،اور ہر مخلوق کے شر سے یا حاسد کی بُری نظر سے شفاد ے،اللہ کے نام کے ساتھ میں تم پر دم کرتا ہوں۔‘‘

یہ دعا اللہ کے حکم سے مفید ترین علاج ہے۔

ایک علاج یہ بھی ہے کہ جس چیز کے بارے میں گمان ہوکہ اسی میں جادو کیا گیا ہے  جسے اون،گرہ لگے ہوئے دھاگے،اوراس کے علاوہ ہر وہ چیز جس میں جادو کیا جاسکتا ہے اسے ختم کردیاجائے،اور سحر زدہ شخص شرعی دعاؤں کا بھی اہتمام کرے،مثلاً صبح اور شام تین تین  مرتبہ اللہ کے کامل کلمات کے ذریعہ ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگے،فجر اور مغرب کی نمازوں کے بعد تین تین بار قل ھو اللہ احد،قل اعوذبرب الفلق،اور قل اعوذبرب الناس پڑھے،اور ہر فرض نماز کے بعد اور سونے کے وقت آیت الکرسی پڑھے۔

اسی طرح صبح اور شام تین تین بار یہ دعا بھی پڑھنا مستحب ہے:

"بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ"

’’اللہ کے نام کے ساتھ(میں نے صبح اور شام کی) جس کے نام کے ساتھ کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی نہ زمین میں اور نہ آسمان میں،اور وہ سننے والا،جاننے والا ہے۔‘‘

یہ ساری دعائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہیں،ساتھ ہی وہ اللہ سے حسن ظن رکھے اور اس بات پر ایمان رکھے کہ یہ دعائیں اور دوائیں محض اسباب ہیں،شفا دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے،اللہ چاہے گاتو ان سے فائدہ  پہنچائے گا،اور چاہے گا توانھیں بے اثر کردے گا،کیونکہ ہر چیز میں اس کی زبردست حکمت ہے، وہ ہر چیز پر قادر اور ہر چیز کا جاننے والا ہے، وہ اگر کچھ دے تو کوئی روکنے والا نہیں،اورجو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں،اور جو فیصلہ کردے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف،اوروہی ہر چیز پر قادر ہے، اورتوفیق دینا اسی کا کام ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:59

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ