السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ علماء اور صالحین اور ان کے آثار سے تبرک چاہنے کو جائز سمجھتے ہیں،اور ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کیاہے،تو اس کا کیا حکم ہے؟کیا ایسا کرنا غیر نبی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشبیہ دینا نہیں ہے؟اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی وفات کےبعد تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے؟نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کا وسیلہ لیناکیساہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی ذات سے ،یا اس کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے،یا اس کے بال سے،یا اس کے پسینے سے،یا اس کے بدن کے کسی بھی حصہ سے تبرک چاہنا جائز نہیں،یہ ساری چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھیں۔کیونکہ اللہ نے آپ کے جسم میں اور جس چیز پر آپ کا دست مبارک لگ جاتا تھا اس میں خیر وبرکت دے رکھی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد کبھی کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تبرک نہیں چاہا،اور نہ ہی خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین وغیرہم کے ساتھ کبھی ایسا ہوا،جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں پتہ تھاکہ یہ چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،کسی اور کے لیے جائز نہیں اور اس لیے بھی جائز نہیں کہ یہ غیراللہ کی عبادت اور شرک کا ذریعہ ہے،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ ومرتبہ،یا آپ کی ذات،یا صفت،یا برکت کے وسیلہ سے دعا کرنا بھی جائز نہیں،کیونکہ اس چیز کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں،نیز یہ آپ کے حق میں غلو اور شرک کا ذریعہ ہے،اور اس لیے بھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایسا نہیں کیا،اگراس میں کوئی بھلائی ہوتی تو ہم سے پہلے انہوں نے اسے کیا ہوتا،اور یہ اس لیے بھی جائز نہیں کہ یہ شرعی دلیلوں کے خلاف ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنىٰ فَادعوهُ بِها ...﴿١٨٠﴾... سورةالاعراف
’’اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں،تو اس کو انہی ناموں سے پکارو۔‘‘
اللہ نے کسی کی جاہ،یا برکت کے وسیلہ سے دعا کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔
اسی طرح اللہ کی صفات مثلاً اس کی عزت،رحمت،اور کلام وغیرہ سے وسیلہ لینے کا حکم بھی وہی ہے جو اس کے اسماء کا ہے،جیسا کہ متعدد صحیح حدیثوں میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعہ اور اللہ کی عزت وقدرت کے ذریعہ پناہ مانگنے کا ذکر موجود ہے۔
اور یہی حکم اللہ کی محبت،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،اللہ اور اس کے رسول پر ایمان،اور نیک اعمال سے وسیلہ لینے کا بھی ہے،جیسا کہ غار والوں کے قصہ میں موجود ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے تین آدمیوں نے رات گزارنے کے لیے ایک غار میں پناہ لی،جب وہ غار میں داخل ہوگئے تو پہاڑ سے ایک چٹان کھسک کر آئی،جس سے غار کامنہ بند ہوگیا اور وہ اسے ہٹا نہ سکے،چنانچہ انہوں نے باہم یہ طے کیاکہ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے اللہ سے دعاکرے،چنانچہ ایک نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کاوسیلہ لیا،تو چٹان کچھ ہٹ گئی لیکن ابھی اس سے نکلنا ناممکن تھا‘دوسرے نے زنا پر قادر ہونے کے باوجود اپنی پاکدامنی کا اور تیسرے نے اپنی امانتداری کا وسیلہ لیا'آخر کار اللہ نے چٹان کو ہٹادی اور وہ باہر نکل آئے۔
یہ حدیث صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری عبرت اور نصیحت کی خاطر اگلے لوگوں کے واقعات کے ضمن میں اس کا تذکرہ کیاہے۔
اس جواب میں جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے متعدد علماء مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ،نیز شیخ عبدالرحمان بن حسن وغیرہم رحمہم اللہ۔نے اپنی اپنی کتابوں میں اسی بات کی صراحت کی ہے۔
رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک نابینا شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کاوسیلہ لیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے اس کے لیے سفارش اور دعا کی اور اللہ نے اس کی بینائی واپس کردی،تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ اور حق کا وسیلہ نہیں،بلکہ آپ کی دعا اور سفارش کا وسیلہ ہے،جیسا کہ حدیث سے واضح ہے اور اس طرح قیامت کے دن لوگ حساب وکتاب شروع ہونے کے لیے،اور جنتی اپنے جنت میں داخل ہونے کے لیے آپ کی شفاعت کا وسیلہ اختیار کریں گے،یہ سب آپ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ اختیار کرنے کی صورتیں ہیں،خواہ دنیا کی زندگی ہویا آخرت کی،نیز یہ آپ کی دعا اور شفاعت کا وسیلہ ہے،نہ کہ آپ کی ذات اور حق کا وسیلہ، جیسا کہ اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے ،جن میں سے بعض کا نام ابھی مذکور ہوا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب