السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جن کا شمار امت مسلمہ میں ہوتا ہے کلمہ لا الٰہ الا اللہ کے معنی ومفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں‘جس کے نتیجہ میں ان سے ایسے ایسے اقوال وافعال سرزد ہوجاتے ہیں جو کلمہ کے سراسر منافی یا اس میں نقص کا سبب ہوتے ہیں‘سوال یہ ہے کہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا صحیح مفہوم‘نیز اس کے تقاضے اور اس کی شرطیں کیا ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً دین کی بنیاد اوراسلام کا پہلا رکن ہے‘جیسا کہ صحیح حدیث میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں‘اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘نمازقائم کرنا‘زکوٰۃ ادا کرنا‘ماہ رمضان کے روزے رکھنا‘اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(متفق علیہ بروایت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
اور صحیحین ہی میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ان سے فرمایا:
’’تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں'تو تم سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں‘جب وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں یہ بتانا کہ اللہ نے رات اور دن میں ان کے اوپر پانچ نمازیں فرض کی ہیں‘اگر وہ تمہاری یہ بات مان بھی لیں تو انہیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان کے اوپر زکوٰۃ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہی کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی۔‘‘(متفق علیه)
اس سلسلہ میں اور بھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔
کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں'اس کلمہ سے اللہ کے سوا ہر چیز سے سچی الوہیت کی نفی'اور خالص اللہ کے لیے اس کا اثبات ہوتا ہے‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ هُوَ البـٰطِلُ ... ﴿٦٢﴾... سورة الحج
’’یہ اس لیے کہ اللہ ہی سچا معبود ہے‘اور اس کے سوا یہ لوگ جس کو پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَن يَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ لا بُرهـٰنَ لَهُ بِهِ فَإِنَّما حِسابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الكـٰفِرونَ ﴿١١٧﴾... سورةالمؤمنون
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے گا جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے‘تو اللہ کے پاس اس کا جواب دینا ہے'بےشک کافر کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ وٰحِدٌ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ الرَّحمـٰنُ الرَّحيمُ ﴿١٦٣﴾... سورةالبقرة
’’لوگو!تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے'اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں‘وہ بہت رحم کرنے والا ‘مہربان ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ... ﴿٥﴾... سورةالبينة
’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ‘‘
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیتیں وارد ہیں۔
یہ کلمہ کسی شخص کے لیے اسی وقت نفع بخش ہوگا اور اسے شرک سے نکال کر دائرہ اسلام میں داخل کرے گا جب وہ اسے زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی اس کے معنی ومفہوم سے واقف ہو‘اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر عمل کرے،منافقین زبان سے یہ کلمہ پڑھتے تھے مگر اس کے باجود وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے‘کیونکہ انہوں نے نہ اس کی تصدیق کی اور نہ اس پر عمل کیا'اسی طرح یہود بھی اس کلمہ کے قائل تھے مگر اس کے باوجود وہ انتہائی درجہ کے کافر شمار ہوئے‘کیونکہ ان کا اس پر ایمان نہیں تھا'اسی طرح اس امت میں قبروں اور ولیوں کی پرستش کرنے والے کافر'یہ بھی زبان سے اس کلمہ کو پڑھتے ہیں ‘مگر اپنے اقوال و افعال اور عقائد سے اس کی صریح مخالفت کرتے ہیں‘لہذا ایسے لوگوں کے لیے یہ کلمہ نہ تو فائدہ مند ہوگا اور نہ ہی اسے محض زبان سے کہہ لینے سے وہ مسلمان ہوجائیں گے‘کیونکہ انہوں نے اپنے اقوال وافعال اور عقائد سے اس کی کھلی مخالفت کی ہے۔
بعض اہل علم نے کلمہ شہادت کی آٹھ شرطیں بتائی ہیں اور انہیں درجہ ذیل دو شعروں میں یکجا کردیا ہے:
علم يقين وإخلاص وصدقك مع‘
محبــة وانقيــاد والقبــول لهــا.
وزيـد ثامنهـا الكفـران منـك بما‘
سوى الإله من الأشياء قد ألها
’’یعنی علم‘یقین اخلاص‘صدق‘محبت‘تابعداری‘اور اس کی قبولیت'اور مزید آٹھویں شرط اللہ کے سوا جن جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ان کا انکار۔
ان دونوں شعروں میں کلمہ کی تمام شرطوں کو جمع کردیا گیا ہے‘اوران کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔اس کے معنی کا علم جو جہالت کے منافی ہو‘جیسا کہ اوپر گذرچکا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں'پس اللہ کے سوا جن جن معبودوں کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہ سب کے سب باطل ہیں۔
2۔یقین جو شک کے منافی ہو‘پس کلمہ پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اس بات پر کامل یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے۔
3۔اخلاص‘اور یہ اس طرح کی بندہ اپنی ساری عبادتیں خالص اپنے مالک اللہ کے لیے کرے‘اگر اس نے عبادت کی کوئی بھی قسم اللہ کے سوا کسی نبی‘یا ولی‘یا فرشتہ ‘یا بت یا جن وغیرہ کے لیے کی تو وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا ہوگا اور اس کے کلمہ شہادت سے اخلاص کی شرط مفقود ہوگی۔
4۔صدق‘یعنی وہ اس کلمہ کے اقرار میں سچا ہو‘ اس کا دل اس کی زبان سے‘اور اس کی زبان اس کی دل سے ہم آہنگ ہو‘اگراس نے زبان سے اسے پڑھ لیا مگر دل میں اس کی تصدیق نہیں تو یہ اس کے لیے سود مند نہیں‘اور وہ دیگر منافقوں کی طرح کافر شمار ہوگا۔
5۔محبت'یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھے‘ اگر اس نے اسے زبان سے پڑھ لیا مگر اس کا دل اللہ کی محبت سے خالی ہے تو وہ منافقوں کی طرح کافر اور اسلام سے خارج شمار ہوگا۔اوراس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ...﴿٣١﴾... سورةآل عمران
(اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھیں اللہ سے محبت ہے تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت رکھے گا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دونِ اللَّهِ أَندادًا يُحِبّونَهُم كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذينَ ءامَنوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ... ﴿١٦٥﴾... سورة البقرة
’’اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو شریک بناتے ہیں اور اللہ کے برابر ان سےمحبت رکھتے ہیں‘اور جو ایمان والے ہیں وہ اللہ سے محبت رکھنے میں سب سے زیادہ ہیں۔‘‘
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیتیں موجود ہیں۔
6۔اس کے معنی ومدلول کی تابعداری ‘یعنی وہ صرف اللہ کی عبادت کرے'اس کی شریعت کا تابعدار ہو‘اس پر ایمان لائے اور یہ اعتقاد رکھے کہ یہی حق ہے ‘اگر اس نے کلمہ پڑھ لیا‘ لیکن خالص اللہ کی بندگی نہیں کی اور نہ ہی اس کی شریعت کی تابعداری کی 'بلکہ غرور تکبر سے کام لیا تو وہ ابلیس اور اس کے مانند لوگوں کی طرح مسلمان نہیں ہوگا۔
7۔اس کے معنی ومدلول کی قبولیت‘یعنی وہ اس بات کو قبول کرے کہ اللہ کے سوا ہر چیز کی عبادت کو چھوڑ کر خالص اسی کی بندگی کرنا ہے اور یہی کلمہ کا مدلول ہے‘نیز وہ اس کا التزام کرے اور اس سے مطمئن ہو۔
8۔اللہ کے سوا تمام چیزوں کی عبادت کا انکار‘یعنی وہ غیر اللہ کی عبادت سے کنارہ کش ہو اور یہ اعتقاد رکھے کہ غیر اللہ کی عبادت باطل ہے‘جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿ فَمَن يَكفُر بِالطّـٰغوتِ وَيُؤمِن بِاللَّهِ فَقَدِ استَمسَكَ بِالعُروَةِ الوُثقىٰ لَا انفِصامَ لَها وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٥٦﴾... سورةالبقرة
’’پس جو کوئی طاغوت کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے‘تو اس نے مضبوط کڑاتھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں‘اور اللہ سننے والا‘جاننے والا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے لاالٰہ الا اللہ کہا‘اور اللہ کے سوا تمام چیزوں کی عبادت کا انکار کیا'تو اس کا مال اور اس کا خون حرام ہوگیا‘اور اس کا حساب اللہ کے حوالے ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
’’جس نے اللہ کو ایک جانا'اور اللہ کے سوا تمام چیزوں کی عبادت کاانکار کیا‘تو اس کا مال اور اس کا خون حرام ہوگیا۔‘‘(صحیح مسلم)
لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ مذکورہ بالاشرطوں کی رعایت کرتے ہوئے کلمہ طیبہ کے تقاضے پورے کریں‘اور جب کسی شخص نے اس کے معنی کو سمجھ لیا اور اس پر کاربند ہوگیا تو اب وہ حقیقی مسلمان ہے جس کا مال اور خون حرام ہے‘اگرچہ وہ ان شرطوں کی تفصیلات سے واقف نہ ہو'کیونکہ حق بات کاجاننا اوراس پر عمل کرنا ہی مقصود ہے۔
مذکورہ آیت میں"طاغوت" سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے‘چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ فَمَن يَكفُر بِالطّـٰغوتِ وَيُؤمِن بِاللَّهِ فَقَدِ استَمسَكَ بِالعُروَةِ الوُثقىٰ لَا انفِصامَ لَها وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٥٦﴾... سورةالبقرة
’’پس جو کوئی طاغوت کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے'تو اس نے مضبوط کڑاتھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں‘اور اللہ سننے والا‘جاننے والا ہے۔‘‘
اورفرمایا:
﴿وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَسولًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطّـٰغوتَ... ﴿٣٦﴾... سورةالنحل
’’اور ہم تو ہر قوم میں ایک پیغمبر(یہ حکم دے کر) بھیج چکے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرواور طاغوت سے بچے رہو۔‘‘
البتہ وہ لوگ جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے اور وہ اس سے قطعاً راضی نہیں‘مثلاًانبیاء علیہ السلام ،صالحین رحمۃ اللہ علیہ اور فرشتے،تویہ طاغوت نہیں ہیں،بلکہ ایسی صورت میں طاغوت درحقیقت شیطان ہے جس نے ان کی عبادت کو لوگوں کے لیے مزین کیا اور اس کی دعوت دی،ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ہر بلا سے محفوظ رکھے۔(آمین)۔
رہے وہ اعمال جو کلمہ لاالٰہ الا اللہ کے کلی طور پر منافی ہیں،اور وہ اعمال جو کلی طور پر نہیں بلکہ کمال توحید کے منافی ہیں،توان کےدرمیان فرق یہ ہے کہ ہر وہ عمل،یا قول،یا اعتقاد جو انسان کو شرک اکبر میں مبتلا کردے وہ کلی طور پر کلی کے منافی ہے،جیسے مردوں،فرشتوں،بتوں،درختوں،پتھروں اور ستاروں وغیرہ کو پکارنا،ان کے لیے قربانی کرنا،نذر ماننا اور انہیں سجدہ کرنا وغیرہ،یہ سارے کام کلی طور پر توحید کی ضد اور اس کے منافی ہیں،اور ان سے کلمہ ’’لاالٰہ الااللہ‘‘ کا اقرار باطل ہوجاتا ہے۔
اور اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو حرام قراردیاہے اور دین میں ان کی حرمت بالکل واضح اورمسلم ہے انہیں حلال سمجھنا،جیسے زنا کاری،شراب نوشی،والدین کی نافرمانی،اور سود خوری وغیرہ،نیز اللہ نے جو اقوال وافعال واجب قرار دیے ہیں،اور دین میں ان کی فرضیت بالکل واضح اور مسلم ہے ان کا اذکار،جیسے پنج وقتہ نماز،زکوٰۃ،رمضان کےروزے،والدین کے ساتھ حسن سلوک،اور شہادتین کے اقرار کی فرضیت کا انکار۔
رہے وہ اقوال واعمال اور عقائد جو ایمان اور توحید میں کمزوری کا سبب،اور اس کے واجبی کمال کے منافی ہیں،تویہ بہت سے ہیں،انہیں میں سے ایک شرک اصغر ہے جیسے ریاکاری،غیر اللہ کی قسم کھانا،اور یہ کہنا کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے،یا یہ اللہ کی طرف سے اور فلاں کی طرف سے ہے،وغیرہ۔اور یہی حکم تمام معصیت اور گناہوں کا بھی ہے،یہ بھی توحید اورایمان میں کمزوری کا سبب اور اس کے واجبی کمال کے منافی ہیں،لہذا ان تمام اقوال وافعال اور عقائد سے دوررہنا واجب ہے جو کلی طور پر توحید اور ایمان کے منافی ہیں یا ان کے ثواب میں کمی کا باعث ہیں۔
اہل سنت وجماعت کے نزدیک ایمان قول وعمل کا مجموعہ ہے،جو اطاعت سے بڑھتا اور معصیت سے گھٹتا ہے،اور اس کی دلیلیں بے شمار ہیں،جنھیں اہل علم نے عقیدہ وتفسیر اور حدیث کی کتابوں میں وضاحت سے ذکر کیا ہے،جو ان کتابوں کی طرف رجوع کرے گا وہ ان ساری دلیلوں سے ضرور واقف ہوگا،انہیں دلیلوں میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:
﴿وَإِذا ما أُنزِلَت سورَةٌ فَمِنهُم مَن يَقولُ أَيُّكُم زادَتهُ هـٰذِهِ إيمـٰنًا فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـٰنًا وَهُم يَستَبشِرونَ ﴿١٢٤﴾... سورةالتوبة
’’اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیاده کیا ہے، سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیاده کیا ہے اور وه خوش ہورہے ہیں۔‘‘
اورفرمایا:
﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَإِذا تُلِيَت عَلَيهِم ءايـٰتُهُ زادَتهُم إيمـٰنًا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ ﴿٢﴾... سورةالانفال
’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘
اورفرمایا:
﴿وَيَزيدُ اللَّهُ الَّذينَ اهتَدَوا هُدًى ...﴿٧٦﴾... سورةمريم
’’اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں انہیں اللہ مزید ہدایت سے نوازتاہے۔‘‘
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیتیں موجود ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب