سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) نبی کریمﷺ سے محبت اور ایمان کا وسیلہ

  • 21507
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1430

سوال

(2) نبی کریمﷺ سے محبت اور ایمان کا وسیلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان اور آپ کی محبت واطاعت کے وسیلہ کے درمیان اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات اور جاہ ومرتبہ کے وسیلہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے‘جبکہ بعض لوگ آپ کی زندگی میں آپ کی دعا کا وسیلہ لینے کے درمیان اور آپ کی وفات کےبعد آپ سے  دعاطلب کرنے کے درمیان خلط  ملط کردیتے ہیں‘ جس کے نتیجہ میں مشروع وسیلہ اور ممنوع وسیلہ کے درمیان تمیز مشکل ہوجاتی ہے 'کیا اس سلسلہ میں کوئی تفصیل ہے جس سے یہ اشکال دور ہوجائے ‘اور ان باطل پرستوں کی تردید ہوجائے جو اس قسم کے مسائل میں مسلمانوں کو الجھائے رکھتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سچ ہے کہ بہت سے لوگ جہالت اورحق بات کی رہنمائی کرنے والوں کی قلت کے سبب مشروع اور وسیلہ اور ممنوع وسیلہ کے درمیان فرق نہیں کرپاتے‘حالانکہ دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے‘مشروع وسیلہ وہ ہے جس کےساتھ اللہ نے رسولوں کو بھیجا‘آسمان سے کتابیں اتاریں اور جس کے لیے جن اور انسان کو پیدا کیا‘اور وہ ہے اللہ کی عبادت کرنا'اس سے اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے نیز تمام رسولوں اور مومنوں سے محبت کرنا‘اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر ان تمام باتوں پر ایمان لانا جن کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبردی ہے‘مثلاً مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا'جنت وجہنم اور وہ تمام باتیں جن کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی ہیں‘یہ سب جنت میں داخل ہونے‘جہنم سے نجات پانے اور دنیا وآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہونے کے لیے مشروع وسیلہ ہیں۔

مشروع وسیلہ کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ سے اس کے اسماء وصفات‘اس کی محبت‘ اس پر ایمان اور اپنے ان نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگی جائے جنھیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع فرمایا ہے‘اور انہیں اپنی رضا وخوشنودی اور جنت کے حصول نیز مشکلات سے نجات اور دنیا وآخرت میں تمام امور کی آسانی کا وسیلہ قراردیا ہے‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ...﴿٣﴾... سورةالطلاق

’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کے لیے(ہر آفت میں) ایک راستہ نکال دے گا'اوراس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورةالطلاق

’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی کردے گا۔‘‘

اورفرمایا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّر عَنهُ سَيِّـٔاتِهِ وَيُعظِم لَهُ أَجرًا ﴿٥﴾...سورةالطلاق

’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کے گناہ اس پر سے اتاردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔‘‘

اور  فرمایا:

﴿إِنَّ المُتَّقينَ فى جَنّـٰتٍ وَعُيونٍ ﴿١٥﴾... سورةالذاريات

’’بے شک پرہیزگار لوگ جنت اور چشموں میں ہوں گے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّ لِلمُتَّقينَ عِندَ رَبِّهِم جَنّـٰتِ النَّعيمِ ﴿٣٤﴾... سورةالقلم

’’بے شک پرہیز گاروں کے لیے ان کے مالک کے پاس نعمت کے باغات ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجعَل لَكُم فُرقانًا وَيُكَفِّر عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيَغفِر لَكُم وَاللَّهُ ذُو الفَضلِ العَظيمِ ﴿٢٩﴾... سورةالانفال

’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناه دور کر دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیتیں وارد ہیں۔

مشروع وسیلہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعت کی اتباع کے وسیلہ سے اللہ سے دعا مانگی جائے‘کیونکہ یہ سب عظیم ترین نیک اعمال اور قربت الٰہی کے بہترین وسائل میں سے ہیں۔

رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جاہ ومرتبہ سے‘یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات سے‘یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق سے‘یادیگر انبیاء علیہ السلام  اور صالحین  رحمۃ اللہ علیہ  کے جاہ ومرتبہ سے‘یا ان کی ذات سے‘یا ان کے حق سے وسیلہ لینا'تو یہ سب بدعت ہیں‘شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں'بلکہ یہ شرک کے اسباب ووسائل میں سے ہیں‘ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایسا نہیں کیا‘جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اور آپ کے حق سے سب سے زیادہ واقف تھے‘اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو انہوں نے ہم سے پہلے اسے کیا ہوتا ‘اور ایسے ہی جب امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور خلافت میں ایک بار قحط پڑا تو لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کے پاس جا کر آپ کا وسیلہ نہیں لیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کے پاس دعا کی‘بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی دعا کے وسیلہ سے بارش طلب کی‘چنانچہ وہ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:

’’اے اللہ! جب ہم اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں قحط کا شکار ہوتے تھے تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا'اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کررہے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر'اور پھر بارش ہوتی تھی۔‘‘(صحیح بخاري)

پھر انہوں نے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو دعا کرنے کاحکم دیا‘انہوں نے دعا کی اور تمام مسلمانوں نے ان کی دعا پر آمین کہی اور اللہ نے لوگوں کو سیراب کیا۔

اس سلسلہ میں غار والوں کا قصہ بھی مشہور ہے جو صحیحین میں مروی ہے‘جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے تین آدمیوں نے بارش کی وجہ سے رات گزارنے کے لیے ایک غار میں پناہ لی‘جب وہ غار میں داخل ہوگئے تو پہاڑ سے ایک چٹان کھسک کر آئی جس سے غار کامنہ بند ہوگیا اور وہ اسے ہٹا نہ سکے‘چنانچہ انہوں نے باہم یہ طے کیا کہ اس مصیبت سے نجات پانے کا صرف ایک راستہ ہے'وہ یہ کہ ہم میں سے ہر  شخص اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے اللہ سے دعا فریاد کرے‘چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا'ایک نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا وسیلہ لیا'دوسرے نے زنا پر قادر ہونے کے باوجود اپنی پاکدامنی کا اور تیسرے نے اپنی امانتداری کا وسیلہ لیا'آخر کار اللہ نے چٹان کو ہٹادی اور وہ باہر نکل آئے۔یہ قصہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ نیک اعمال مشکلات ومصائب سے نجات اور دنیا وآخرت کی سختیوں سے عافیت کے عظیم ترین اسباب میں سے ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ کسی شخص کے جاہ ومرتبہ سے‘یا اس کی ذات سے‘یا اس کے حق سے وسیلہ لینا مذموم بدعت اور شرک کے وسائل میں سے ہے۔رہا مردے کو پکارنا اوراس سے فریاد کرنا تو یہ شرک اکبر ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین    کی زندگی میں قحط کے زمانہ میں آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کرتے'اور اپنے نفع بخش امور میں آپ سے سفارش کرواتے تھے‘لیکن جب آپ کی وفات ہوگئی تھی تو اس کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا'اور نہ ہی شفاعت وغیرہ طلب کرنے کے لیے وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر پر آئے'کیونکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کیے بعد یہ چیز جائز نہیں'بلکہ یہ چیز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی تک مخصوص تھی‘اب اس کے بعد قیامت کے دن ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے شفاعت طلب کی جائے گی'جیساکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ قیامت کے دن جب تمام مومن آدم  علیہ السلام ،نوح  علیہ السلام ،ابراہیم  علیہ السلام ،موسیٰ  علیہ السلام ،اور عیسیٰ علیہ السلام  کے پاس جائیں گے تاکہ یہ ان کے لیے سفارش کریں کہ اللہ ان کا حساب وکتاب شروع کرے اور وہ جنت میں داخل ہوں'تو ان میں سے ہر شخص نفسی نفسی کہہ کر معذرت کردے گا اور دوسرے کے پاس بھیج دے گا'اور جب آخر میں یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام  کے پاس پہنچیں گے تووہ معذرت کرتے ہوئے ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف  رہنمائی کردیں گے‘یہاں تک کہ جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچیں گے تو آپ اللہ کے وعدہ کے مطابق فرمائیں گے:’’میں ہی اس کے لیے ہوں‘میں ہی اس کے لیے ہوں۔‘‘پھر آپ جائیں گے اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے اور کثر ت سے اس کی حمد وتعریف کریں گے‘یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا جائے گا:سر اٹھاؤ اور کہو بات سنی جائے گی‘مانگو دیا جائے گا اور سفارش کرو قبول کی جائےگی۔

یہی حدیث شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا ذکر اللہ نے ذیل کی آیت میں کیاہے:

﴿عَسىٰ أَن يَبعَثَكَ رَبُّكَ مَقامًا مَحمودًا ﴿٧٩﴾... سورةالإسراء

’’عنقریب تیرا رب تجھے مقام محمود پر پہنچادے گا۔‘‘

اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آل واصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین پر اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سچی اتباع کرنے والوں پر رحمت وسلامتی نازل فرمائے'اور ہمیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت نصیب فرمائے‘بے شک وہ سننے والا اور قریب ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:20

محدث فتویٰ

تبصرے