سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ و خیرات کا حکم

  • 21459
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2425

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بیوی آدمی کے بغیر پوچھے صدقہ و خیرات دے سکتی ہے؟ حدیث سے وضاحت کریں۔ (عبدالقادر گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کو اپنے خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر مال خرچ نہیں کرنا چاہیے ابو امامہ الباھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

" لا تنفق امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها قيل : يا رسول الله ولا الطعام ؟ قال ذاك افضل اموالنا "

"عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے۔کہا اے اللہ کے رسول اور غلہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ تو ہمارے افضل مالوں سے ہے۔"

(ابوداؤد (3565) ترمذی (670) ابن ماجہ (2398) مسند احمد 5/267 مسند طیالسی (1127) المصنف لعبد الرزاق (16621) التمھید 1/230 بیہقی 4/193-194 شرح السنۃ 6/204)

معلوم ہوا کہ جب ایسا صدقہ و خیرات جو غلے سے کم قدر و قیمت والا ہو وہ خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتی تو جو غلہ افضل اموال سے ہے وہ کیسے خرچ کر سکتی ہے۔ (تحفۃ الاحوذی 3/288) اگر عورت کو معلوم ہو کہ صدقہ و خیرات کرنے سے مرد روکتا نہیں بلکہ پسند کرتا ہے تو پھر خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اذا تصدقت المراة من بيت زوجها كان لها به اجر وللزوج مثل ذلك وللخازن مثل ذلك ولا ينقص كل واحد منهم من اجر صاحبه شيئا بما كست ولها بما انفقت "

"جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ کرتی ہے تو اسے اس کا اجر ملتا ہے اور شوہر کو بھی اسی طرح اجر ملتا ہے اور خزانچی کو بھی اس کی مثل اجر ملتا ہے اور ہر ایک دوسرے کے اجر کو کم نہیں کرتا۔ مرد کے لیے اس کی کمائی کا اجر اور عورت کے لیے اس کے خرچ کرنے کا اجر ہے۔

(ترمذی (671) نسائی کبری 2/35)

عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اذا اعطت المراة بين بيت زوجها بطيب نفس غيره مفسدة كان لها مثل اجره لها ما نوت حسنا وللخازن مثل ذلك "

"جب عورت شوہر کے گھر سے خوشی کے ساتھ عطیہ دے اور عطیہ میں اسراف کرنے والی نہ ہو اس کے لیے شوہر کی مثل اجر ہے اور عورت کے لیے وہ ہے جو اس نے اچھی نیت کی اور خازن کو بھی اسی کی مثل اجر ہے۔

(ترمذی (672) نسائی کبری 5/379)

علامہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں رقمطراز ہیں۔

" وهذا محمول على اذن الزوج لها بذلك صريحا او دلالة "

(تحفۃ الاحوذی 3/390)

"یہ عورت کے لیے شوہر کی اجازت پر محمول ہے خواہ یہ اجازت صراحۃ ہو یا دلالۃ۔"

مطلب یہ ہے کہ مرد نے عورت کو واضح طور پر خرچ کرنے کی اجازت دے رکھی ہو یا اس کے عمل سے معلوم ہو کہ یہ عورت کے خرچ کرنے پر وہ ناراض نہیں ہوتا۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ 4/435 میں یہ قول بھی ہے کہ یہ معاملہ اہل حجاز کی عادت کے موافق ہے۔ ان کی عادت تھی کہ انہوں نے اپنی بیویوں اور نوکروں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مہمان نوازی کریں۔ سائل، مساکین اور پڑوسیوں کو کھلائیں، پلائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس اچھی عادت اور عمدہ خصلت پر شوق دلایا ہے۔

لہذا عورت کو شوہر کی طرف سے جب اجازت ہو، خواہ یہ اجازت وضاحت کے ساتھ ہو یا کسی اور طریقے سے تو اسے خرچ کرنا چاہیے۔ مرد کی طرح عورت کو بھی اجر ملے گا۔ مرد کو کمائی کرنے کی وجہ سے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے۔ ہمارے گھروں میں مرد حضرات کی عادت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور خواتین اللہ کی راہ میں عطیات و صدقات خرچ کرتی رہتی ہیں اور شوہر اس پر ناراض نہیں ہوتے۔ بہرکیف عورت کو شوہر کی اجازت و رضا مندی حاصل کر لینی چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجامع-صفحہ569

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ