سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) بیرون ملک ولدیت بدل کر ملازمت کرنا

  • 21456
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1989

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے علاقے کے کچھ لوگ آج سے تیس سال پہلے ملازمت کے لئے ہانگ کانگ گئے وہاں پر کاروبار بہت اچھا تھا۔ جب وہاں پر بیرونی لوگ بہت زیادہ ہو گئے تو وہاں کی گورنمنٹ نے قانون سخت کر دئیے کہ جو لوگ پہلے وہاں سیٹل تھے اب وہی کسی کو اپنا بیٹا بنا کر یا اپنی بیوی کا والد ظاہر کر کے لے جا سکتے تھے۔ اب پہلے سے مقیم لوگوں نے اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کو کاغذات میں اپنا بیٹا بنا کر لے جانا شروع کر دیا۔

ابھی اس طریقہ سے جا کر کئی لوگ وہاں پر ملازمت کر رہے ہیں۔ اس طریقہ سے میرے قریبی عزیز بھی گئے ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ دلیل ہے کہ ہم وہاں حقیقت میں تو ان کو باپ نہیں سمجھتے بلکہ صرف وہاں کی غیر مسلم گورنمنٹ کے سامنے ہی کاغذات میں اپنے باپ کے علاوہ دوسرے باپ کے بیٹے بنے ہوتے ہیں۔

اب آپ یہ بتائیں کہ: (1) غیر مسلم حکومت کے سامنے کاغذات میں اپنے باپ کے علاوہ دوسرے باپ کی طرف نسبت کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بیٹا بنانا اور کفار سے جھوٹ بولنے کا جواز جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کافر بادشاہ کے سامنے اصل بات واضح کھل کر نہ کی۔

ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں کہ کیا اس طرح کاغذات میں اصل والد کی جگہ دوسرے والد کا نام لکھنا اور کام کرنا جائز ہے؟

(2) بخاری شریف کی حدیث:

" من ادعى الى غير ابيه وهو يكره فالجنة عليه حرام "

مذکورہ معاملے پر فٹ آتی ہے یا نہیں۔

(3) اگر یہ کام ناجائز ہے تو توبہ کا کیا طریقہ کار ہے۔ کیا وہاں سے واپس آنا ضروری ہے یا نہیں۔ جب کہ وہ لوگ وہاں پر انہی کاغذات پر رہ سکتے ہیں۔ اصل ولدیت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔

(4) اس طرح ان کی کمائی کے بارے میں کیا حکم ہے۔ ایک جگہ سے ہمیں فتویٰ ملا ہے کہ ان کی کمائی حرام ہے کیونکہ اس کمائی کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ کیا جھوٹ کی بنیاد پر کیے ہوئے کام کی کمائی حرام ہے اگرچہ وہ کام فی نفسہ جائز ہو۔

(5) اگر ان کی کمائی حرام ہے تو ایسے رشتہ داروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں نیز ان کی کمائی سے کھانا پینا وغیرہ کیسا ہے۔

(6) ایک عالم دین نے ان کو فتویٰ دیا کہ آپ ابھی اسی طرح ملازمت جاری رکھیں صرف اتنی توبہ کافی ہے کہ ہم آئندہ سے کسی کا بیٹا نہیں بنیں گے یعنی ابھی انہی کاغذات پر ملازمت کرتے رہیں کیا یہ مؤقف اور توبہ کا یہ طریقہ شریعت کے موافق ہے۔(محمد شفیق بن شیر بہار، ضلع اٹک)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زمانہ جاہلیت میں رواج چلا آ رہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی تھا کہ لوگ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے۔ اور انہیں حقیقی بیٹوں کی مانند حقوق حاصل تھے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جنہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لے کر پالا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر پکارتے تھے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل کی۔

﴿ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورةالاحزاب

"لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور جو تم سے بھول چوک میں ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔"

(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ (4786) صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل زید بن حارثہ و اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنھما 62/2425، تحفۃ الاحوذی 9/58)

عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ سھلہ بنت سہیل بن عمرو جو حذیفہ ابن عتبہ کی بیوی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگی ابو حذیفہ کا غلام سالم ہمارے پاس آتا ہے۔ اور میں کام کاج کے لباس میں ہوتی ہوں ہم اسے بیٹا سمجھتے ہیں ابو حذیفہ نے اسے اسی طرح متبنی بنا رکھا ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بیٹا بنایا ہے تو اللہ نے یہ آیت نازل کر دی۔

﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ﴾

(المنتقیٰ لابن الجارود (690) صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی الدین (5088) ابوداؤد (2061) مؤطا مالک 2/605 دارمی 2/81 عبدالرزاق 7/409 مسند احمد 6/210،271 صحیح ابن حبان (2،42) بیہقی 7/409،460، صحیح مسلم (1453) ابن ماجہ (1943) مسند حمیدی (278)

اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جاتا تھا بلکہ انہیں ان کے باپ حارثہ کی طرف منسوب کر کے ہی پکارا جاتا تھا۔ اس آیت میں اللہ نے جاہلی رسم کی ممانعت کر دی اور ساری نسبتیں ختم کر کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے بلانے کا حکم دیا ہے اور جس کی نسبت کا علم نہیں تو انہیں بیٹا کہنے کی بجائے بھائی اور دوست کہنا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا:

" انت اخونا ومولانا "

"تم ہمارے بھائی اور دوست ہو۔"

(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب عمرتہ القضاء (4251) مسند احمد 1/115 شرح السنہ 14/140 بیہقی 8/6، 10/226 المستدرک للحاکم 3/120)

اور جو شخص جان بوجھ کر غلط انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہو گا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحیفے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ:

"وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا"

"جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کی یا جس غلام نے اپنے موالی (جہنوں نے اسے آزاد کیا) کے علاوہ نسبت کی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس سے نفلی اور فرضی کوئی عبادت قبول نہیں کرے گا۔"

(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب المدینہ حرم بین عیر الی ثور 467/1370 ترمذی (2120،2121،2127) ابن ماجہ (2609) مسند احمد 1/328 مسند ابی یعلی (2540) ابوداؤد (2870) وغیرہ میں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے مروی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے:

" من ادعى الى غير ابيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام "

"جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کی طرف منسوب کیا اور وہ جانتا بھی ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔"

(صحیح البخاری، کتاب المغازی (4326،4327) و کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ (6766) ابن ماجہ (2610) مسند طیالسی (199) عبدالرزاق (16310،16313،16314) ابن ابی شیبہ 8/825 مسند احمد 1/169،174، 5/38،46) مسند عبد بن حمید (135) ابوداؤد (5113) مسند ابی یعلی (700،702،765) مسند ابی عوانہ 1/29،30 شرح السنۃ (2376)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من ادعى الى غير ابيه لم يرح ريح الجنة، وان ريحها ليوجد من مسيرة خمس مئة عام "

"جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ منسوب کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا اور بلاشبہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے پائی جائے گی۔ ایک روایت میں 70 سال کا ذکر ہے۔"

(ابن ماجہ (2611) مسند احمد 2/171،194 مسند طیالسی (2274)

ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

" ليس من رجل ادعى لغير ابيه وهو يعلمه الا كفر بالله ومن ادعى قوما ليس له فيهم نسب فليتبوا مقعده من النار "

"جو شخص جانتے ہوئے بھی اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف نسبت کرے اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے اور جس نے کسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کیا جس قوم میں اس کا نسب نہیں ہے وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔"

(صحیح البخاری، کتاب المناقب (8،35) صحیح مسلم، کتاب الایمان 112/61 مسند احمد 5/166)

مولانا صفی الرحمان مبارکپوری حفظہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں:

"(ادعى الى غير ابيه) اى نسبه الى غير ابيه (الاكفر) كفرا مخرجا عن الاسلام، ان كان مستحلاله، والافقد كفر النعمة والاحسان و حق الله تعالى و حق ابيه، وهذا كمال قال صلى الله عليه وسلم عن النساء يكفرن ثم فسره بكفر انهن الاحسان وكفران العشير "

(امنۃ المنعم 1/91)

"یعنی جس شخص نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی طرف نسبت حلال سمجھتے ہوئے کی تو اس نے ایسے کفر کا ارتکاب کیا جو اسلام سے خارج کرنے والا ہے۔ اور اگر ایسے نہیں ہے تو اس نے نعمت، احسان، اللہ کے حق اور اپنے باپ کے حق سے کفر کیا ہے یعنی کفران نعمت کا مرتکب ہوا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے کفر کے بارے میں فرمایا پھر اس کی تفسیر کفران احسان اور کفران عشیر سے کی۔"

مذکورہ بالا آیت مجیدہ اور احادیث مبارکہ صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ کسی بھی شخص کو اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف نسبت کرنا حلال نہیں جو شخص جانتے بوجھتے اپنے آپ کو کسی کی طرف منسوب کرے تو وہ کفر صریح کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور جس شخص کے باپ کا علم نہ ہو اسے بیٹا کہنے کی بجائے بھائی یا دوست کہا جائے۔ البتہ اگر کوئی کسی چھوٹے کو محبت اور پیار سے بیٹا یا بھتیجا کہے تو وہ الگ بات ہے۔

(1) مذکورہ بالا آیت اور احادیث اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان جہاں کہیں بھی ہو خواہ اپنے ملک میں یا بیرون ملک، کسی صورت میں بھی اپنے آپ کو غیر باپ کی طرف منسوب نہیں کر سکتا اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے دلیل لینا بالکل غلط ہے کیونکہ آیت کے نزول کے بعد زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جاتا تھا۔ احکامات منسوخہ سے استدلال کرنا بالکل مردود ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے خلاف ظاہر بات کہنے سے دلیل لینا بھی بالکل غلط اور باطل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی تصریح فرما دی ہے کہ غیر باپ کی طرف جان بوجھ کر نسبت کرنے والا کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔

دوسرے ملک میں کاروبار کی غرض سے ولدیت بدل کر جانے کو ابراہیم علیہ السلام کے معاملہ سے ذرہ بھر بھی علاقہ نہیں ہے۔

(2) بخاری شریف کی مذکورہ حدیث اس امر پر بالکل واضح ہے کہ نسبت بدلنا حرام ہے۔

(3) توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی اصل ولدیت اپنے کاغذات پر تحریر کرے، اپنے کیے پر ندامت اختیار کرے اور اللہ کے حضور سچے دل سے معافی مانگ لے کیونکہ سچی توبہ کے لیے ضروری ہے کہ پچھلے گناہ کو ترک کرے اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کر لے اور اپنے کیے پر ندامت اختیار کر کے اللہ سے استغفار کر لے۔

جیسا کہ امام نووی نے ریاض الصالحین میں توبہ کے باب میں ذکر کیا ہے اپنے کاغذات میں اپنی اصل ولدیت تحریر کرنا ضروری ہے۔ جان بوجھ کر غلط ولدیت لکھنے کے متعلق اوپر ذکر کردہ احادیث پر غور کر لیں اگر اصل ولدیت تحریر نہ کر سکے اور وہاں پر رہ کر اسلامی احکامات کا اظہار نہ کر سکے تو پھر اپنے وطن واپس آ جائے۔

(4) ان کی دیگر ممالک میں رہ کر کمائی کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر وہاں پر رہ کر صحیح حلال کام و تجارت کرتے ہیں تو آمدنی حلال ہے بصورت دیگر حرام۔ غلط ولدیت تحریر کرنے کی وجہ سے احادیث میں مذکورہ وعید کے مستحق ضرور ہیں لیکن ان کی کمائی پر حرمت کا حکم تب لگے گا جب وہ وہاں پر حرام کام کر کے اجرت لیں کیونکہ فعل حرام پر اجرت حرام ہے۔

جیسے شراب بنانا حرام ہے اور شراب بیچ کر اجرت لینا بھی حرام، سود حرام ہے اور سود کے ذریعے کمائی کر کے کھانا کھلانا بھی حرام سودی معاملات میں تعاون کرنے والے کاتب اور گواہ بھی اسی پر جو اجرت لیں گے وہ حرام ہے۔

اسی طرح زنا حرام ہے اور زنا کی اجرت بھی حرام الغرض فعل حرام پر اجرت درست نہیں اور اگر فعل صحیح جائز اور شرعی ہے تو اس پر لی گئی اجرت درست ہے۔

(5) اس سوال کا جواب  نمبر 4 میں موجود ہے۔

(6) کاغذات اپنے فوری طور پر صحیح کروائیں اپنی اصل ولدیت کاغذات میں لکھایا اور تحریر کروایا کریں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجامع-صفحہ558

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ