سیدنا طلق بن علی کے واقعہ کی حقیقت بیان کریں؟
عام طور پر ذکر و اذکار کے موضوع پر مطبوعہ کتب میں ایک روایت درج ہوتی ہے کہ سیدنا طلق فرماتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ کا مکان جل گیا۔ انہوں نے فرمایا نہیں جلا پھر دوسرے شخص نے یہی خبر دی تو فرمایا: نہیں جلا پھر تیسرے شخص نے آ کر کہا:
کہ اے ابودرداء! آگ کے شرارے بہت بلند ہوئے مگر جب آپ کے مکان تک آگ پہنچی تو بجھ گئی فرمایا مجھے معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے نہیں کرے گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات پڑھ لے شام تک اس کو کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی میں نے صبح یہ کلمات پڑھے تھے اس لئے مجھے یقین تھا کہ میرا مکان نہیں جل سکتا۔ وہ کلمات یہ ہیں۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ صحیح و درست ہے اور اس روایت کی کیا حیثیت ہے؟ (مولوی محمد اسماعیل سلفی آرائیاں والا گاؤں کنگن پور ضلع قصور)
یہ روایت عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (57،58) کنز العمال (3583)الاسماء والصفات للبیہقی 1/269،270 کتاب الاذکار للنووی (248) ص 116 میں موجود ہے اس کی ایک سند میں الاغلب بن تمیم ہے۔ جسے امام احمد، ابن حبان اور امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔
(التاریخ الصغیر 2/216 کتاب المجروحین /175 اور امام بخاری جسے منکر الحدیث قرار دیں اس سے روایت لینا حلال نہیں۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
(میزان الاعتدال 2/1602/6 قواعد فی علوم الحدیث ص 258 طبقات الشافعیہ الکبری للسبکی 2/9 الرفع والتکمیل ص 208 فتح المغیث للسخاوی 1/400 تدریب الراوی 1/349)
ہر وہ شخص جس کے متعلق میں "منکر الحدیث" کہوں اس سے روایت حلال نہیں۔ دوسری سند میں معان ابو عبداللہ اور اس کا استاذ دونوں مجہول راوی ہیں لہذا یہ روایت درست نہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب