سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(107) گری پڑی چیز اٹھانے کا حکم

  • 21447
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 6319

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لقطہ یعنی گری پڑی چیز کے بارے میں کیا حکم ہے؟ یعنی سب سے پہلے تو یہ کہ اٹھا لینی چاہیے کہ نہیں اگر سرراہ پڑی ہوئی ہو تو؟ دوسرا یہ کہ اگر بالفرض آدمی پکڑ لیتا ہے اور اعلان وغیرہ کرنے کے باوجود اس چیز کا اصل مالک نہیں ملتا تو پھر کیا حکم ہے؟ بعض اوقات یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ چیز شہر میں کسی بارونق بازار میں پڑی ہوئی ملے تو اس صورت میں اعلان کرنے سے اس چیز کے کئی جعلی دعویدار بھی اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں جس سے فتنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد مسئلہ یہ ہے کہ وہ گری پڑی چیز ایک آدمی اٹھا لیتا ہے اور وہ اپنے گھر آ جاتا ہے تو اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ چیز بھی ہو سکتی ہے اور نقدی وغیرہ بھی ہو سکتی ہے۔ آیا وہ چیز بیت المال میں جمع کروا دے یا صدقہ کر دے یا اپنے مصرف میں لے آئے یا کسی مسجد مدرسہ کی تعمیر میں لگا دے یا مجاہدین کے فنڈ میں جمع کروا دے یعنی کون سی راہ اختیار کی جائے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کا تفصیلی جواب ارسال فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (ماسٹر محمد اشفاق مالومہے ڈسکہ۔ سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لقطہ زمین پر گری پڑی ہوئی چیز پکڑنے کو کہتے ہیں اس کی تین صورتیں ہیں۔

1۔ وہ چیز بالکل معمولی سی ہو اور کھانے کے کام آنے والی ہو۔ اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اسے اٹھا کر صاف کر کے تناول کر لیا جائے جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" مر النبي صلى الله عليه وسلم بتمرة مسقوطة فقال لولا أن تكون من صدقة لأكلتها "

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔"

(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب ما ینتزہ من الشبھات 2055)

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: « إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي، فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً، فَأُلْقِيهَا »"

(صحیح البخاری، کتاب فی اللقطہ، باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق 2432)

"ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (کبھی) جب میں اپنے گھر پلٹتا ہوں تو اپنے بستر پر پڑی ہوئی کھجور کو دیکھتا ہوں اور کھانے کے لئے اس کو اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی نہ ہو اس لئے اسے پھینک دیتا ہوں۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر راستے میں کوئی ایسی گری پڑی چیز مل جائے جو معمولی ہو اور کھانے کے قابل ہو تو اٹھا کر کھا سکتے ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ظَاهِرٌ فِي جَوَازِ أَكْلِ مَا يُوجَدُ مِنَ الْمُحَقَّرَاتِ مُلْقًى فِي الطُّرُقَاتِ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَمْتَنِعْ مِنْ أَكْلِهَا إِلَّا تَوَرُّعًا لِخَشْيَةِ أَنْ تَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ الَّتِي حُرِّمَتْ عَلَيْهِ لَا لِكَوْنِهَا مَرْمِيَّةً فِي الطَّرِيقِ فَقَطْ"

(فتح الباری 5/86)

"یہ حدیث راستے میں پڑی ہوئی حقیر چیزوں کو اٹھا کر کھا لینے کے جواز میں ظاہر ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ذکر کیا ہے کہ انہیں اس کھجور کے کھانے میں صرف یہ چیز مانع ہوئی کہ کہیں یہ صدقہ کی نہ ہو جو آپ پر حرام کیا گیا ہے نہ کہ اس کا راستہ میں فقط گرا پڑا ہونا۔ لہذا معمولی سی کھانے والی چیز گری پڑی مل جائے تو اسے اٹھا کر کھا سکتے ہیں۔ اس کا اعلان کرنے کی حاجت نہیں۔"

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ چیز ہو تو معمولی نوعیت کی مگر کھانے کے کام آنے والی نہ ہو جیسے چھڑی، کوڑا، رسی، چاقو وغیرہ اس کے بارے میں متعدد اقوال ہیں کہ تین دن تک لوگوں کے اجتماع میں اعلان کرتا رہے یا اتنی دیر اعلان کرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس کا مالک اس کے بعد اسے تلاش نہیں کرے گا۔

سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

" الشئ الحقير لا يعرف سنة بل يعرف زمنا يظن أن صاحبه لا يطلبه بعده ، وللملتقط أن ينتفع به إذا لم يعرف صاحبه "

(فقہ السنۃ 3/233)

"حقیر سی چیز کا سال بھر اعلان نہ کیا جائے بلکہ اتنی دیر اعلان کیا جائے کہ یقین ہو جائے کہ اس کا مالک اس کے بعد اسے تلاش نہیں کرے گا۔ ایسی چیز کو اٹھانے والا اس سے نفع حاصل کر سکتا ہے جب اس کا مالک معلوم نہ ہو۔"

اس کی دلیل بعض روایات و آثار سے ملتی ہے۔ جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" رخص لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في العصا والسوط والحبل وأشباهه يلتقطه الرجل ينتفع به "

(ابوداؤد، کتاب القطۃ (1717) بیہقی 6/195)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لاٹھی، کوڑا، رسی اور اس جیسی اشیاء میں رخصت دی ہے کہ اگر کوئی آدمی ایسی چیز گری پڑی اٹھا لے تو وہ اس سے نفع حاصل کر سکتا ہے۔"

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " وفى اسناده ضعف " اس کی سند میں کمزوری ہے۔ (فتح الباری 5/85)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" فى رفع هذا الحديث شك وفى اسناده ضعف " (بیہقی 6/195)

اس حدیث کے مرفوع ہونے میں شک ہے اور اس کی سند میں کمزوری ہے۔ امام ابوداؤد نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ راجح بات یہ ہے کہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں۔ اور مرفوع و موقوف دونوں صورتوں میں علت یہ ہے کہ اس کی سند میں ابو الزبیر مدلس راوی ہیں اور انہوں نے اپنے استاذ سے سننے کی وضاحت نہیں کی۔

(ارواء الغلیل 6/15)

علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حدیث ہے کہ انہیں بازار سے ایک دینار ملا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا تین دن اس کا اعلان کر۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو کوئی شخص ایسا نہ ملا جو اس دینار کو پہچاننے والا ہو۔ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کر کے آپ کو خبر دی۔ آپ نے انہیں کہا، اسے کھا لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایک دینار کو 12 درھم میں توڑا اس میں سے 3 درھم کی کھجوریں، ایک درھم کا زیتون خریدا ۔۔ الغرض ان کے پاس 3 درھم باقی بچ گئے۔ جب انہوں نے ان اشیاء میں سے کچھ حصہ استعمال کر لیا تو اس دینار کا مالک آ گیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اسے کہا مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھا لینے کا حکم دیا تھا وہ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ بات بیان کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا اس کا دینار اسے ادا کر دو۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ہمارے پاس کوئی چیز آئے گی تو ہم اسے ادا کر دیں گے۔

(عبدالرزاق، باب احلت اللقطۃ الیسیرۃ 10/142،143 رقم (18637) نصب الرایۃ 3/470 کشف الاستار 12/131،132 (1368) مسند ابی یعلی 2/332 (1073)

امام بزار فرماتے ہیں اس کی سند میں ابوبکر بن ابی سبرۃ ہے۔ وہ لین الحدیث ہے۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابوبکر بن ابی سبرۃ وضاع ہے۔

(مجمع الزوائد 4/1699 رقم (6849)

لیکن حافظ ضیاء مقدسی فرماتے ہیں کہ یہ ابوبکر بن ابی سبرۃ کے علاوہ ہے اور اس حدیث کو انہوں نے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم

یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من التقط لقطة يسيرة حبلا أو درهما أو شبه ذلك فليعرفها ثلاثة أيام فإن كان فوق ذلك فليعرفه ستة " (مسند احمد 4/173)

"جو شخص کوئی ہلکی سی چیز گری پڑی اٹھا لے جیسے درھم یا رسی یا اس جیسی کوئی اور چیز تو وہ تین دن تک اس کا اعلان کرے۔ اگر اس سے اوپر ہو تو ایک سال تک اس کا اعلان کرے۔"

مسند احمد کے مطبوعہ نسخے میں اس حدیث کے آخر میں ایک سال کا ذکر ہے جب کہ مجمع الزوائد 169/4 میں " فليعرفه ستة أيام " کے الفاظ ہیں یعنی چھ دن تک اس کا اعلان کرے۔ مسند احمد کے اطراف 5/470 میں بھی اسی طرح ان الفاظ کو ضبط کیا گیا ہے اور محقق نے مسند احمد کے ترکی اور ہندی مخطوطے سے بھی اسی طرح ثبت کیا ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے یعنی ایسی چیز کا اعلان تین یا چھ دن تک کرے۔ اگر مالک نہ آئے تو استعمال کر لے لیکن اس کی سند میں عمر بن عبداللہ بن یعلی کمزور راوی ہے۔ مذکورہ بالا روایات میں اگرچہ ضعف ہے لیکن ان کی تائید میں آثار صحیحہ موجود ہیں جیسا کہ اسماعیل بن امیہ سے روایت ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

" إذا وجدت لقطة فعرفها وإلا فشأنك بها "

(مصنف عبدالرزاق 10/136)

جب تو کوئی گری پڑی چیز پائے تو مسجد کے دروازے پر تین دن تک اس کا اعلان کر۔ اگر تو اس کو پہچاننے والا آ جائے تو اس کے حوالے کر اور اگر نہ آئے تو اسے استعمال کر لے۔ اس لقطہ کو معمولی سی چیز پر ہی محمول کیا جائے گا۔

جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور اثر میں ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا جس کو ایک ستو کی تھیلی ملی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ وہ تین دن تک اس کا اعلان کرے۔ پھر وہ تین دن کے بعد آیا اس نے کہا: اس کو پہچاننے والا کوئی نہیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے غلام اسے پکڑ لے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے درندے لے جائیں یا ہوائیں اڑا دیں۔ (عبدالرزاق 10/143)

لہذا جب کوئی معمولی سی چیز ملے جو کھانے کے کام نہ آنے والی ہو تو اس کا تین دن تک یا اتنے دن تک اعلان کرے کہ یقین ہو جائے کہ اس کا مالک اسے تلاش نہ کرے گا اس کے بعد استعمال کر سکتا ہے۔

3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ چیز قیمتی ہو۔ اس کا سال بھر اعلان کرتا رہے۔ عصر حاضر میں اخبارات، ریڈیو، بڑے بڑے جلسوں میں اعلان کرایا جا سکتا ہے اور اگر سال تک مالک نہ آئے تو اسے اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اگر مالک آ جائے تو اسے وہ چیز واپس کرنی پڑے گی اگر وہ استعمال کر چکا ہو اور اصل چیز موجود نہ ہو تو اتنی قیمت ادا کر دے۔ اور چیز جب ملے تو اس کی علامات اور نشانیاں اچھی طرح ذہن نشین کر لے یا نوٹ کر لے۔

لقطہ اگر حیوان ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو ایسا ہو گا جو اپنا دفاع خود کر سکتا ہو گا جیسے اونٹ، بیل وغیرہ تو ایسے حیوان کو نہ پکڑا جائے اور اگر ایسا حیوان ہو کہ وہ اپنا دفاع خود نہ کر سکتا ہو تو اسے پکڑ لیا جائے جیسے بکری وغیرہ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زید بن خالد جھنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" عرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة ، فإن جاء صاحبها ، وإلا فشأنك بها "

اس کا ڈاٹ اور تسمہ خوب پہچان لے پھر سال بھر اس کا اعلان کرتا رہے۔ پھر اگر اس کا اصل مالک آ جائے تو اس کے سپرد کر دو ورنہ جو چاہو کرو۔ پھر اس نے گم شدہ بکریوں کے بارے میں پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" لك أو لأخيك أو للذئب "

وہ تیرے لئے ہے یا تیرے بھائی کے لئے یا بھیڑئیے کے لیے۔ پھر اس نے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

" مالك ولها؟ ومعها حذاءها وسقائها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يجدها ربها "

"تجھے اس سے کیا سروکار اس کا پانی، اس کے جوتے اس کے پاس ہیں گھاٹ پر آ کر پانی پی لے گا۔ درختوں کے پتے کھائے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اس کے پاس پہنچ جائے گا۔"

(صحیح البخاری، کتاب القطۃ (2429) صحیح مسلم، کتاب القطۃ (1722) المؤطا للمالک، باب فی القطۃ)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ لقطہ اگر قیمتی چیز ہو یا جانور بکری وغیرہ کی مثل ہو تو اس کو پکڑ لے اس کی علامات و نشانیاں اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔ سال بھر اس کا اعلان کرتا رہے اگر اس کا مالک سال بھر اعلان تک نہ آئے تو اسے اپنے استعمال میں ضمانت و ذمہ داری کے ساتھ لے آئے اور اگر اس کا مالک بعد میں آ جائے تو اس کی ملکیت باقی رہتی ہے اور اسے وہ چیز واپس کرنی پڑے گی اور اگر ایسا حیوان ہو جو اپنا دفاع کر سکتا ہو تو اسے نہیں پکڑنا چاہیے۔  گری پڑی چیز جس شخص کو مل جائے اسے وہ چیز غائب یا چھپانی نہیں چاہیے۔

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے بارے سوال کیا گیا آپ نے فرمایا:

" تعرف ولا تغيب ولا تكتم، فإن جاء صاحبها والا فهو مال الله يؤتيه من يشاء "

(مجمع الزوائد 4/297 رقم (6839) طبع جدید مسند بزار (1367 کشف الاستار)

"اس کی شناخت کی جائے اور اسے غائب نہ کیا جائے اور نہ چھپایا جائے۔اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دو اوراگر نہ آئے تو وہ اللہ کا مال ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔"

شناخت و پہچان کا حکم اس لئے ہے کہ اس کے جعلی دعویدار پیدا نہ ہوں بلکہ جو شخص صحیح علامات بیان کر دے اس کے حوالے کی جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجامع-صفحہ533

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ