ہمارے ساتھ عیسائی لڑکے پڑھتے ہیں ہم ان کے ساتھ سلام بھی لیتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ ان کے ساتھ سلام لینا جائز ہے یا نہیں۔ اگر نماز پڑھتے وقت ذہن میں کوئی برا یا غلط خیال آ جائے تو کیا نماز ٹوٹتی ہے یا نہیں؟ اگر نماز ٹوٹ جاتی ہے تو ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ (ابو عبدالرحمٰن: کسووال)
سلام اسلامی آداب میں سے ایک اہم تریب ادب ہے اور یہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے حق میں بہترین دعا ہے اس کی تاکید شریعت اسلامیہ میں بہت زیادہ ہے اسے حقوق ستہ میں ذکر کیا گیا ہے اور سلام کہنے میں ایک دوسرے کی تعظیم و تکریم ہوتی ہے اور عزت و تکریم کے لائق اہل اسلام ہیں، کفار نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور عزت اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لئے اور ایمان والوں کے لئے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔"
یہودی اور عیسائی عزت والے نہیں ذلیل ہیں ان کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حرام کردہ اشیاء کو حرام نہیں جانتے نہ دین حق قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔"
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ یہودونصاریٰ ذلیل و خوار لوگ ہیں ان کی عزت و تکریم نہیں کرنی چاہئے اسی ذلت اور خواری کا احساس دلانے کے لیے انہیں سلام میں پہل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور انہیں تنگ راستے کی طرف مجبور کر دینے کا حکم دیا گیا ہے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کہنے میں پہل نہ کرو اور جب تم ان میں سے کسی کو راستے میں ملو تو اسے تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔"
(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب لا تبدو الیھود والنصاریٰ بالسلام 13/2167 ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی السلام علی اھل الذمۃ 5205، ترمذی، کتاب الاستئذان 1602، 2700 مسند احمد 2/266 عبدالرزاق 19457 سلسلہ صحیحہ 704)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہودی اور عیسائی کی تکریم نہیں ہے انہیں سلام میں ابتداء نہیں کرنی چاہیے اور اگر راستے میں مل جائیں تو انہیں تنگ راستے کی طرف گزرنے پر مجبور کر دیا جائے تاکہ وہ ذلیل و خوار ہوں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ راستے میں اگر ان سے ملاقات ہو تو پھر سلام میں پہل نہیں کرنی چاہیے اور اگر وہ گھر یا دوکان وغیرہ پر ہوں تو پھر ممانعت نہیں ہے یہ تاویل فاسدہ ہے سہیل بن ابی صالح کہتے ہیں میں اپنے باپ کے ساتھ شام کی طرف نکلا شام والے گرجا گھروں میں رہنے والوں کے پاس سے گزرتے تو ان پر سلام کہتے۔ میں نے اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا تو انہوں نے کہا میں نے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:
"انہیں سلام کہنے میں پہل نہ کرو اور انہیں تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔"
(مسند احمد 8/350 تحقیق احمد شاکر)
اس حدیث کے راوی ابو صالح ذکوان ثقہ تابعی ہیں انہوں نے اس حدیث کو پیش کر کے واضح کر دیا ہے کہ یہ نہی کتابی کو شامل ہے خواہ وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو۔
ابو عثمان النھدی کہتے ہیں: ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خط میں ایک راہب کو سلام لکھا تو انہیں کہا گیا:
"کیا تم اس کافر کو سلام کہتے ہو۔" تو انہوں نے جواب دیا:
"اس نے مجھے خط لکھا اور سلام کہا۔" میں نے اس کا جواب دیا ہے۔"
(الادب المفرد، باب اذا کتب الذمی فسلم یرد علیہ 1101)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خیرالقرون میں یہ بات معروف تھی کہ اہل کتاب کو سلام کہنے میں پہل نہیں کی جاتی تھی خواہ وہ گھر میں ہوتا یا راستے میں تبھی تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر نکیر کی گئی اور ابو موسیٰ نے اسے برقرار رکھا۔ اس پر انکار نہیں کیا بلکہ عذر پیش کیا گیا کہ اس راہب نے مجھے اپنے خط میں سلام لکھا تھا میں نے اس کا جواب دیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہرقل کو خط لکھا تھا تو اس میں اسے سلام لکھنے میں پہل نہیں کی بلکہ یوں لکھا:
(صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی 7، صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر 74، الادب المفرد، باب کیف یکتب الی اھل الکتاب 11009)
"اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہودونصاریٰ کو سلام کی ممانعت صرف راستے کے ساتھ خاص ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرقل کو سلام کہنے میں ابتداء کرتے۔ آپ کے عمل سے بھی یہ بات واضح ہو گئی کہ سلام کہنے کی یہ ممانعت یہودونصاریٰ کو ہر مقام پر شامل ہے۔"
اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی لڑکے کی عیادت کی تو اسے کہا "اسلم" اسلام لا۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز: 1356 وغیرہ)
البتہ یہودونصاریٰ کو یہ کہہ سکتے ہیں کیا حال ہے تم نے صبح کیسے کی وغیرہ جیسا کہ علقمہ تابعی فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک قریہ کے رئیس کو اشارے سے سلام کہا امام بخاری نے الادب المفرد 2/620 میں اس اثر پر یہ باب قائم کیا ہے باب باب من سلم على الذمى اشارة یعنی اس بات کا بیان کہ جس نے ذمی کو اشارے سے سلام کہا۔"
معلوم ہوا کہ زبان سے السلام علیکم جیسے پیارے الفاظ سے یہودونصاریٰ کو سلام میں پہل کرنے کی ممانعت ہے۔ البتہ اشارہ جو مسلمانوں کا خاص سلام نہیں ہے یا حال احوال دریافت کرنے کی ممانعت نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر آپ کو عیسائی یا یہودی وغیرہ کفار سلام میں پہل کریں تو آپ انہیں اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابوداؤد، کتاب الادب 5206، بخاری، کتاب الاستئذان 6257، مسلم 8/2164)
"بلاشبہ یہود میں سے جب کوئی تمہیں سلام کہتا ہے تو وہ کہتا ہے السام علیکم۔ تم پر موت واقع ہو۔ تو تم کہو وعلیکم اور تم پر بھی۔"
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا السام علیکم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم نے اس کو سلام لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے السام علیکم کہا ہے وہ یہودی پکڑا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا، آپ نے فرمایا: جو اس نے کہا وہ اس پر لوٹا دو۔ (الادب المفرد 2/620) (1105) ارواء الغلیل (1276)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہودی و عیسائی جو کلمہ کہے وہی اس پر لوٹاتے ہوئے وعلیکم کہہ دیں اگر اس نے السام علیکم کہا ہو گا تو خود اس کا مستحق ٹھہرے گا اور اگر دعائیہ کلمہ کہا ہو گا تو پھر اسے بھی دعا مل جائے گی اگر صاف معلوم ہو کہ اس نے السلام علیکم کہا ہے تو اس کے جواب میں اگر کسی نے وعلیکم السلام کہہ دیا تو یہ بھی جائز ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا:
"جب تمہیں تحفہ (سلام) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر جواب دو یا وہی لوٹا دو۔"
یہ آیت کریمہ اپنے عموم کی بنا پر غیر مسلمین کو بھی شامل ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مفسر قرآن فرماتے ہیں:
(النساء: 86، الادب المفرد، باب کیف الرد علی اھل الذمۃ 1107 تفسیر طبری)
سلام لوٹاؤ خواہ کوئی یہودی ہو یا عیسائی یا مجوسی اس لئے کہ اللہ نے فرمایا:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ انہوں نے کہا:
(الادب المفرد، باب کیف یدعو للذمی 1113)
اگر فرعون مجھے کہتا بارک اللہ فیک، اللہ تجھ میں برکت ڈالے تو میں کہتا اور تجھ میں بھی اور فرعون بلاشبہ مر چکا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر دعائیہ کلمہ کہنے میں پہل کرے تو اسے جواب دے سکتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا، ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔"
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو کفار مسلمانوں سے لڑائی نہیں کرتے اور ان کے دین میں مداخلت نہیں کرتے تو ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جا سکتا ہے لہذا جب وہ السلام علیکم کہیں تو انہیں وعلیکم السلام کہہ دیں تو جائز ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب