کیا یہ حدیث درست ہے کہ آپ نے سیدہ عائشہ یا کسی اور ام المومنین سے یہ فرمایا کہ آپ کی وفات کے بعد سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم کے گھر میں بغیر حجاب کے رہ سکتی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو انہی مذکور صحابی کے متعلق حدیث ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پردہ نہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ وہ دیکھ نہیں سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دیکھ سکتی ہیں۔ (ام اسامہ۔ لاہور کینٹ)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور آپ کے پاس میمونہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں تو عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور یہ معاملہ ہمیں حجاب کا حکم ملنے کے بعد کا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس سے حجاب کرو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ نابینا نہیں نہ ہمیں دیکھتا ہے اور نہ ہی پہنچانتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دونوں اندھی ہو؟ کیا تم اسے نہیں دیکھتیں؟
(سنن ابی داؤد، کتاب الباس 4112) مسند احمد 6/296، ترمذی (2778)
یہ روایت نبھان مولی ام سلمہ کی وجہ سے حسن ہے۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو عمر بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دی (یعنی تیسری طلاق جس کے بعد خاوند بیوی کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے) اور وہ غائب تھا (یمن کی طرف چلے گئے تھے) اس نے فاطمہ کی طرف اپنے وکیل کو بھیجا وہ ناراض ہو گئیں اس نے کہا اللہ کی قسم! تیرا ہمارے اوپر کوئی حق نہیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے یہ بات ذکر کی آپ نے فرمایا: تیرے لئے اس کے ذمہ کوئی نفقہ و خرچہ نہیں۔
آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر عدت گزارے پھر فرمایا: یہ عورت ہے میرا صحابی اس کے پاس آئے گا۔ تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں عدت گزار لو۔ وہ نابینا آدمی ہے۔ تم وہاں اپنے کپڑے اتار سکو گی جب تیری عدت پوری ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا کہتی ہیں جب میں نے عدت پوری کر لی میں نے آپ سے تذکرہ کیا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم نے مجھے پیغام نکاح دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجہم تو اپنے کندھے سے اپنی لاٹھی نہیں اتارتا اور معاویہ فقیر آدمی ہے۔ اس کے پاس مال نہیں۔ تو اسامہ بن زید سے نکاح کر لے۔ کہتی ہیں: میں نے اسے ناپسند کیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسامہ کے ساتھ نکاح کر لے، میں نے اس سے نکاح کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں خیروبرکت ڈال دی اور اس پر میرے ساتھ رشک کیا جانے لگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الطلاق (1480) ابوداؤد (2283) نسائی 3244)
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ نابینے سے حجاب کا جس حدیث میں حکم ہے وہ ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنھن کے بارے میں ہے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا واقعہ ہے۔
نابینے کے ہاں عدت گزارنے کا مسئلہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا ہے۔ وہ ام المومنین نہیں ہیں اب رہا نابینے سے عورت کے حجاب کا مسئلہ تو امام ابوداؤد ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ نابینے سے حجاب کا مسئلہ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں خاص ہے۔ کیا تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں فاطمہ بنت قیس کی عدت گزارنے کی طرف نہیں دیکھتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس سے کہا: تو عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں عدت گزار لے وہ نابینا آدمی ہے۔ تم اس کے ہاں اپنا لباس اتار سکو گی"(ابوداؤد حدیث 4112)
گویا امام ابوداؤد کے ہاں نابینے سے حجاب ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا اور عام عورتوں کے لئے اس کی رخصت ہے علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اجنبی مرد کی طرف دیکھنا مطلق طور پر حرام ہے اور بعض صورتیں خاص ہیں جیسے عورت پر فتنے کا خوف ہو تاکہ اس حدیث اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حبشیوں کا کھیل دیکھنے والی حدیث کے درمیان تطبیق ہو جائے اور جنہوں نے مطلق طور پر حرام کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ حجاب کی آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور صحیح ترین بات یہ ہے کہ عورت کا مرد کی طرف ناف سے اوپر اور گھٹنوں سے نیچے بلا شہوت دیکھنا جائز ہے اور یہ حدیث ورع و تقویٰ پر محمول ہے۔ (تحفۃ الاحوذی: 8/65)
گویا مولانا مبارکپوری کے ہاں ورع و تقویٰ تو اس میں ہے کہ عورت اجنبی مرد کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرے اور نابینے سے بھی حجاب اختیار کرے اور اسے نہ دیکھے اگرچہ شہوت کے بغیر عورت اجنبی کی طرف نظر کر سکتی ہے۔ واللہ اعلم
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب