کیا کسی مشرک و کافر کی طرف سے دیا گیا عطیہ قبول کرنا جائز ہے اسی طرح کسی کافر و مشرک کو عطیہ دیا بھی جا سکتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟ (ایک سائل۔ لاہور)
اگر کوئی کافر و مشرک کسی مسلمان کو ھدیہ یا عطیہ دے تو اس کا قبول کرنا جائز ہے۔ ایک بات کا لحاظ رکھا جائے کہ وہ چیز اسلام میں استعمال کرنا جائز و درست ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی کفار کی جانب سے بھیجے گئے ہدایا و تحائف قبول کئے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری، کتاب الھبۃ میں باب قبول الھدیۃ من المشرکین منعقد کر کے اس کا جواز ثابت کیا ہے اور درج ذیل دلائل پیش کئے ہیں۔
(1) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زہر آلود بکری کا گوشت لائی آپ نے اس میں سے کچھ کھایا پھر جب اس عورت کو لایا گیا تو اس نے زہر ڈالنے کا اقرار کیا تو کہا گیا کیوں نہ ہم اسے قتل کر دیں؟ آپ نے فرمایا نہیں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس زہر کا اثر میں نے ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تالو میں محسوس کیا۔ (صحیح البخاری، کتاب الھبۃ 2617)
(2) مکہ سے مصر جاتے ہوئے سمندر کے کنارے ایلہ نامی ایک بندرگاہ تھی وہاں کے عیسائی حاکم کا نام یوحنا بن ادبہ تھا۔ تو اس حاکم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفید خچر اور ایک چادر ہدیہ کے طور پر بھیجی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف لکھ بھیجا کہ وہ اپنی قوم کے حاکم کی حیثیت سے باقی رہے کیونکہ اس نے جزیہ دینا منظور کر لیا تھا۔
ملاحظہ ہو: (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ 1481، مسند الدارمی 2537)
(3) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشم کا ایک جبہ ہدیہ دیا گیا یہ جبہ دومہ (جو تبوک کے نزدیک ایک مقام ہے) کے ایک عیسائی نے آپ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا۔ (صحیح البخاری 2615،2616)
اور عیاض بن حمار سے جو روایت آئی ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ کی تو آپ نے فرمایا کہ تو اسلام قبول کیا ہے اس نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا مجھے مشرکین سے ہدیہ لینے سے منع کیا گیا ہے۔
(ابوداؤد 3057، ترمذی 1577، مسند طیالسی 1083، المنتقیٰ لابن الجارود 1110، ابن خزیمہ بحوالہ فتح الباری 5/231)
یہ قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے۔ اسی طرح موسیٰ بن عقبہ نے کتاب المغازی میں جو روایت بیان کی ہے کہ عامر بن مالک مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے آپ کو ہدیہ پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے بعض نے اسے زہری سے موصول بھی بیان کی ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہے۔
(فتح الباری 5/230 تحفۃ الاحوذی 5/188)
مزید تفصیل کے لئے تحفۃ الاحوذی اور فتح الباری جیسی کتب کی طرف رجوع کیا جائے۔
اب رہا کافر و مشرک کو ہدیہ دینا اس کے جواز کے لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر 8 سے استدلال کیا ہے جس میں اللہ نے فرمایا ہے:
"جو لوگ تم سے دین کے متعلق لڑتے نہیں اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے معاملہ میں انصاف سے تمہیں نہیں روکتا۔"
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ قتال نہیں کیا اور نہ ہی انہیں ان کے گھروں سے نکالا ہے ان کے ساتھ دنیاوی اخلاق اور سلوک منع نہیں ہے پھر یہ بھی یاد رہے کہ بر و صلہ اور نیکی و احسان سے یہ لازم نہیں آتا کہ کفار کو دلی دوست بنا لیا جائے اور ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانی شروع کر دی جائیں کیونکہ کفار کو دلی دوست بنانا منع ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے علاوہ کسی کو نہ بناؤ۔ کفار تمہاری تباہی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں مبتلا رہو۔ ان کی دشمنی تو ان کی زبانوں سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی بڑی ہے ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کر دی ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔"
امام بخاری نے باب الھدیۃ للمشرکین (2619) میں عمر رضی اللہ عنہ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبہ دیا تھا پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے ایک کافر عثمان بن حکیم وہ وہ جبہ ہدیہ دے دیا۔ ذکر کر کے استدلال کیا ہے کہ مشرک کو ہدیہ بھی دے سکتے ہیں۔
(بخاری مع فتح الباری: 5/232،233)
بہرکیف دنیاوی اخلاق و سلوک کے تحت مشرک کو ہدیہ دیا بھی جا سکتا ہے اور اس سے قبول بھی کیا جا سکتا ہے ممانعت والی روایات قابل حجت نہیں ہیں البتہ ان ہدایا و تحائف کی وجہ سے ان سے دلی دوستی اور محبت و مودت قائم نہیں کرنی چاہیے کیونکہ مسلمان کے لئے دوستی و دشمنی کا معیار اسلام ہے۔ واللہ اعلم
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب