موجودہ دور میں کئی لوگ جب آپس میں ملتے ہیں تو السلام علیکم کی بجائے "کی حال اے" وغیرہ کہتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اسی طرح سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دینا کیسا ہے؟ علاوہ ازیں عورتیں بڑے بڑے ناخن رکھتی ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ (محمد عباس۔ پسرور)
اسلام باہمی اخوت و مروت کا دین ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
"ایمان والے بھائی بھائی ہیں۔"
ان کی باہمی محبت کو قائم رکھنے کے لئے اسلام نے بہت سارے احکام و آداب بیان فرمائے ہیں جن میں سے ایک ادب یہ ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو "السلام علیکم" کہیں۔ یہ مسلمانوں کے ذمے مسلمانوں کا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام (5/2162)
"مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں جب تو اس سے ملے تو سلام کہہ اور جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر، اور جب تجھ سے خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر، اور جب اسے چھینک آئے وہ اللہ کی حمد کرے تو اسے "یرحمک اللہ" کہہ اور جب وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت کر، جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔"
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ ملاقات کے وقت سلام کہنے کا حکم ہے اگر دوسرا بھائی سلام میں پہل کر جائے تو اس کا جواب کم از کم "وعلیکم السلام" کے الفاظ کے ساتھ دینا چاہیے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جب کوئی سلام کہے تو اس سے بہتر جواب دیں جیسا کہ ارشاد ہے:
"اور جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہیں الفاظ کو لوٹا دو۔ بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔"
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے کہا:
تو آپ نے فرمایا:
پھر ایک اور آیا اس نے کہا:
آپ نے اسے کہا:
پھر ایک اور آیا اس نے کہا:
آپ نے اسے کہا:
اس آدمی نے آپ سے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کے پاس فلاں فلاں آیا انہوں نے سلام کہا آپ نے ان کے جواب میں زیادہ کلمات کہے اس کی نسبت جو آپ نے مجھے جواب دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ہمارے لئے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"ہم نے تجھ پر اسے لوٹا دیا ہے۔"
یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
" وفى هذا الحديث دلالة على أنه لا زيادة في السلام على هذه الصفة، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، إذ لو شرع أكثر من تلك لزاده رسول الله صلى الله عليه وسلم " (تفسیر ابن کثیر: 1/583)"اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ سلام کہنے میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ سے زیادہ کلمات نہیں کہنے چاہیے۔ اگر یہ اس سے زائد کلمات مشروع ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ کر دیتے۔"
اس مسئلہ کی تائید عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جو ترمذی ابوداؤد اور مسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں زبان کے ساتھ ملاقات کے وقت سلام کے کلمات کہنے چاہئیں۔
سلام کی جگہ "کی حال اے" (Good Morning) وغیرہ کہنا صحیح نہیں۔ سلام کے کلمات کہنے کے بعد اگر "کی حال اے" یا دوسرے کلمات سے حال وغیرہ معلوم کر لیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
سلام کا جواب محض ہاتھ کے اشارے سے دینا بھی درست نہیں سلام کا جواب دینے کے لئے کلمات ہی کہنے چاہئیں جیسا کہ مذکورہ احادیث سے واضح ہے۔
ہاں اگر کوئی شخص دور ہو تو سلام کے ساتھ اگر اشارہ بھی کیا جائے تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ مجھے سلام کہا جا رہا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے اور امام بخاری نے اپنی کتاب "الادب المفرد" میں اس معنی کے کئی ایک آثار نقل کئے ہیں البتہ حالت نماز میں کوئی سلام کہہ دے تو اس کا جواب زبان سے نہیں بلکہ ہاتھ کے اشارے سے دے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی حالت میں سلام کہتے تھے؟ تو آپ کس طرح جواب دیتے تھے۔ فرمایا آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔"
سنن الترمذى باب ما جاء فى الاشارة فى الصلاة ابن ماجهہاتھ کے ساتھ صرف اشارہ یا فقط سر ہلانا یہ یہودونصاریٰ کا طریقہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
فتح البارى عمل اليوم والليلة وغيرهماھذا ما عندی والله اعلم بالصواب