سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) عورت کا خاوند کی مرضی کے بغیر ذاتی مال خرچ کرنا

  • 21436
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1197

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت اپنا ذاتی مال خاوند کی مرضی کے بغیر خرچ کر سکتی ہے۔ اگر عورت اپنا ذاتی مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہے تو کیا خاوند سے اجازت لے اسی طرح اگر عورت برائی کے کاموں میں مال صرف کرے تو کیا خاوند اسے منع کر سکتا ہے؟ (نیاز۔ ملتان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے تاکہ اس کے معاملات کی صحیح نگرانی کرے اور اس کو پیش آنے والے مصائب میں اس کی حفاظت کا موجب بنے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الرِّجالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ...﴿٣٤﴾... سورةالنساء

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اس آیت کریمہ میں مرد کی حاکمیت و قوامیت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک فضیلت وہی ہے جو مردانہ قوت و دماغی صلاحیت پر مبنی ہے جس میں مرد کو عورت سے خلقی طور پر ممتاز بنایا گیا ہے۔

اسی طرح مجموعی لحاظ سے مرد کو عورت پر فضیلت دیتے ہوئے مرد کی گواہی مکمل اور عورت کی ادھوری رکھی گئی ہے۔ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتیں گواہی دیتی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عورت کے عقل کا نقصان قرار دیا ہے۔

بہرکیف شریعت نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے اور اس کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو شرع کا پابند رکھے اور جو امور حکمت و مصالح پر مبنی ہوں ان پر دعوت کی توجہ کو مرکوز رکھے مرد کو جو عورت پر حقوق عطا کئے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت کے پاس اگر اپنا ذاتی مال ہو تو وہ اسے خرچ کرتے وقت خاوند سے مشورہ کرے اور اجازت لے کر نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرے۔

1۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" لا يجوز لامرأة أمر في مالها إذا ملك زوجها عصمتها "

(ابوداؤد، کتاب الاجارۃ، باب عطیۃ المراۃ بغیر اذن زوجھا (3546) سنن النسائی، کتاب العمری، باب عطیۃ المراۃ بغیر اذن زوجھا (3765) بیہقی 6/60 مستدرک حاکم 2/47 مسند احمد 2/221 ابن ماجہ (2388)

"عورت کا کوئی اختیار اپنے مال میں جائز نہیں جب خاوند اس کی عصمت کا مالک بن گیا۔"

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ:

" لما فتح الله رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة قام خطيبا فقال فى خطبة لا يجوز للمرأة عطية إلا بإذن زوجها "

(سنن النسائی، کتاب العمری، باب عطیۃ المراۃ بغیر اذن زوجھا (3766) و کتاب الزکاۃ، باب عطیۃ المراۃ بغیر اذن زوجھا (2539) ابوداؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی عطیۃ المراۃ بغیر اذن زوجھا (3547) مسند احمد 6/207 بیہقی 2/60 شرح السنۃ 4/317 سلسلۃ الصحیحۃ (825)

"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا: عورت کے لئے خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں۔"

خاوند کی اجازت کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں: اجازت کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ خرچہ اور صدقہ و خیرات میں صریح اجازت

2۔ ایسی اجازت جو عرف سے سمجھی جائے جیسے سائل کو روٹی وغیرہ کا ٹکڑا دینا جیسا کہ عام طور پر گھروں میں معروف ہوتا ہے اور خاوند کی رضا اور روزمرہ کے معاملات کی وجہ سے معروف ہوتی ہے ایسے خرچ پر خاوند نہیں بولتا اور سمع و درگزر میں وہ عام لوگوں کی طرح ہے تو اجازت صریح کی ضرورت نہیں اور اگر خاوند کی رضامندی مشکوک ہو یا اس کا بخل معلوم ہو تو عورت کے لئے خاوند کے مال سے اس کی رضامندی حاصل کئے بغیر صدقہ وغیرہ دینا جائز نہیں اس میں صریح اجازت کی ضرورت ہے۔

(ملخص از حاشیہ سندھی علی النسائی 5/69،70)

اہل علم کے ہاں یہ بات مختلف فیہ ہے کہ وہ عورت جو رشد و ہدایت والی ہو اور سمجھ بوجھ رکھی ہو کیا اسے اپنے جمع مال میں تصرف کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام ابن منذر اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا یہ مذہب ہے کہ اسے اپنے مال میں تصرف کا حق حاصل ہے۔ اور امام احمد کی ایک روایت یہ ہے کہ اسے ثلث سے زائد مال خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کرنا چاہیے۔

اور بعض اہل علم جیسے امام طاؤس، لیث اور علامہ البانی وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ عورت کو اپنے خاص مال میں تصرف کرنے کے لئے خاوند کی اجازت حاصل کرنی چاہئے اس میں خاوند کی حاکمیت جو اللہ تعالیٰ نے اسے عورت پر عطا کی ہے پوری ہوتی ہے۔ لیکن خاوند کے لئے یہ جائز نہیں جب وہ سچا مسلمان ہو کہ اس حکم میں خیانت کرے اور عورت پر جبر سے کام لے اور اسے اس کے ذاتی مال میں وہاں تصرف کرنے سے روکے جہاں ان دونوں کا کوئی نقصان نہیں اور یہ حق لڑکی کے ولی کے حق کے ساتھ کس قدر مشابہت رکھتا ہے کہ لڑکی کو جائز نہیں کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے جب ولی لڑکی کے لئے نکاح میں رکاوٹ ڈالے تو معاملہ شرعی قاضی کی طرف منتقل کیا جائے گا تاکہ وہ انصاف کرے اسی طرح عورت کے مال کا حکم ہے جب خاوند اس پر ظلم و جبر کرے اور اسے جائز تصرف سے روکے تو قاضی اس کے لئے انصاف مہیا کرے گا۔ (سلسلہ صحیحہ للشیخ البانی 2/420)

جمہور ائمہ نے قرآن حکیم کی اس آیت سے دلیل لی ہے کہ عورت کے اندر اگر سوچ و سمجھ اور مال کے تصرف کرنے میں رشد و ہدایت موجود ہو تو اسے اپنا مال صرف کرنے کا حق حاصل ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن ءانَستُم مِنهُم رُشدًا فَادفَعوا إِلَيهِم أَمو‌ٰلَهُم... ﴿٦﴾... سورةالنساء

"اگر تم ان میں رشد پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔"

اس آیت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ وہ یتیم بچے بچیاں جن کے کفیل تم بنائے گئے ہو جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان میں جب مال خرچ کرنے کے متعلق تم رشد و ہدایت دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔ اس آیت میں رشد کے بعد مطلق طور پر ان کے مال ان کے سپرد کرنے کا کہا جا رہا ہے لہذا عورت اصلا اس بات کی مجاز ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کر سکتی ہے۔ اس طرح انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا والی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقہ کے متعلق سوال کیا کہ کیا ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند پر صدقہ کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ (بخاری وغیرہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اجازت دی اور یہ شرط ذکر نہیں کی۔ اس لئے کہ جس فرد کی طرف اس کا مال رشد کی وجہ سے لوٹانا واجب ہے۔ اس کے لئے اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہے۔ مزید دیکھیں (المغنی لابن قدامہ 6/604)

بہرکیف یہ دلائل عام ہیں اور ان میں خاوند کی اجازت کا ذکر نہیں اور یہ بات معلوم و معروف ہے کہ عدم ذکر سے نفی ثابت نہیں ہوتی اور اس عموم کی تخصیص اوپر ذکر کردہ احادیث سے ہو جاتی ہے کہ عورت کو مال صرف کرتے وقت عطیہ، صدقہ و خیرات کرتے وقت خاوند کی اجازت حاصل کر لینی چاہئے جہاں خاوند رکاوٹ کا باعث ہو یا معلوم ہو کہ وہ اس بات پر ناراض ہے اور اگر عرف عام کے مطابق عورت صدقہ و خیرات کرتی ہے اور خاوند کو بھی معلوم ہے اور وہ منع نہیں کرتا تو یہ بھی اس کی طرف سے اجازت ہے۔

صحابیات کے صدقہ و خیرات کے جو واقعات ہیں جن میں اجازت کا ذکر نہیں شاید وہ اسی وجہ سے ہیں کہ صحابہ کرام بھی صدقہ و خیرات پسند کرتے تھے اور ان کی طرح ان کی ازواج بھی نیک اور دیندار تھیں وہ انہیں صدقہ و خیرات سے منع نہیں کرتے ہوں گے۔

اور عورت کو اگر خاوند نیکی کے کاموں میں اس کا ذاتی مال صرف کرنے سے منع کرے تو قاضی کی طرف معاملہ پہنچایا جائے تاکہ وہ انصاف کرے جیسا کہ عورت کے نکاح میں رکاوٹ ہو تو عورت کی رضا حاصل کئے بغیر نکاح نہیں کرنا چاہیے اور مسلمان حکمران کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور اگر عورت مال کو تباہ و برباد کرتی ہو تو خاوند کو روکنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ وہ عورت کا حکمران اور راعی ہے اور راعی کا حق ہے کہ وہ اپنی رعایا میں شرعی امور کا نفاذ کرے جیسا کہ حدیث:

" كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته " سے واضح ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاداب-صفحہ473

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ