سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) مرحومہ کے ترکہ کا حکم

  • 21432
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 876

سوال

(92) مرحومہ کے ترکہ کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء کرام بیچ اس مسئلے کے:

1۔ ایک خاتون ماہ فروری 1998ء کو رحلت فرما گئی رحلت کے وقت مرحومہ کی عمر (70) سال تھی۔

2۔ مرحومہ کے نام ایک سکنی مکان ہے۔

3۔ مرحومہ کے نہ والد حیات ہیں اور نہ والدہ حیات ہے جو تقسیم ہند کے وقت شہید ہو گئے تھے۔

4۔ مرحومہ کے نہ دادا اور نہ دادی حیات ہیں۔

5۔ مرحومہ کا کوئی چچا نہ تھا۔

6۔ مرحومہ کے نہ نانا اور نہ نانی حیات ہیں۔

7۔ مرحومہ کا نہ ماموں حیات ہے۔

8۔ مرحومہ کے ماموں کی اولاد حیات نہ ہے۔

9۔ مرحومہ کے نہ پردادا اور نہ پردادی حیات ہے۔

10۔ مرحومہ کی ایک بہن تھی جو فوت ہو چکی ہے وہ غیر شادی شدہ تھی۔

11۔ مرحومہ کا کوئی بھائی نہ تھا۔

12۔ مرحومہ کا خاوند حیات ہے۔

13۔ مرحومہ کی کوئی اولاد نہ ہے۔

14۔ مرحومہ کی ایک پھوپھی تھی جس کا انتقال قیام پاکستان سے پہلے ہو چکا ہے۔ ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں حیات ہیں۔

اندریں حالات مندرجہ بالا افراد سے کون کون سے شرعی وارثان بنتے ہیں۔ اور اگر یہ سب ہی وارثان ہیں ان افراد کا سکنی مکان مذکورہ میں کتنا کتنا شرعی حصہ بنتا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ، العارض: صبغت اللہ خان۔ 2000-8-17


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال۔ صورت مذکورہ میں میت کا وارث اصحاب الفروض میں سے اس کا شوہر اور ذوالارحام میں سے پھوپھی اور خالہ کی اولاد ہے شوہر کا حصہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں نصف 2/1 ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ﴾

"اور تمہارے لیے اس ترکے کا نصف 2/1 حصہ ہے جو تمہاری بیویوں نے چھوڑا ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو۔"

لہذا اس نص قطعی کی بنا پر شوہر کا نصف حصہ ہے باقی نصف پھوپھی اور خالہ کی اولاد میں راجح موقف کی بنا پر تقسیم ہو گا۔ اور ان کی تقسیم میں فرق ہے۔ پھوپھی اور خالہ کی اولاد ذوی الارحام کی صف رابع میں شامل ہیں۔ شیخ صالح بن فوزان "التحقیقات المرضیہ فی المباحث الفرضیۃ" ص 260 رقمطراز ہیں۔

" الرابع من ينتمي إلى أجداد الميت وجداته، وهم الأعمام لأم، والعمات مطلقاً، وبنات الأعمام مطلقاً والخؤولة مطلقاً وإن تباعدوا، وأولادهم وإن نزلوا "

شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "ذوی الارحام کی چوتھی قسم کا بیان:

1۔ اگر قرابت صرف باپ کی طرف سے ہو مثلا پھوپھیاں اور اخیافی چچے یا صرف ماں کی طرف سے ہو مثلا ماموں اور خالہ اس صورت میں جس کی قرابت زیادہ قوی ہے وہ بالاتفاق ترکہ کا حقدار ہے۔

(تعلیم الفرائض ص 48) آگے جا کر فرماتے ہیں: اگر قرابت مختلف ہے کوئی باپ سے ہے کوئی ماں کی طرف سے تو پھر قوت قرابت کا اعتبار نہیں مثلا ایک عینی پھوپھی ہے دوسری اخیافی خالہ یا عینی خالہ اور اخیافی پھوپھی اس صورت میں ماں کے قرابت کی ایک تہائی خالہ کے لئے اور باپ کی قرابت کی دو تہائی حصہ پھوپھی کے لئے ہے۔

(تعلیم الفرائض ص 48)

مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ پھوپھی اور خالہ کی اولاد ذوی الارحام کی چوتھی قسم میں سے ہے۔ شوہر کا حصہ 2/1 نکالنے کے بعد باقی جائیداد ان میں تقسیم ہو گی۔ ان کی قرابت کی جہت چونکہ مختلف ہے پھوپھی کی اولاد کے لئے میت کی جہت قرابت ماں ہے۔

باپ کی جہت قرابت والوں کو دو تہائی 3/2 اور ماں کی جہت قرابت والوں کو ایک تہائی 3/1 حصہ ملے گا۔ تفصیل کے لئے تعلیم الفرائض اور التحقیقات المرضیہ فی المباحث الفرضیۃ ملاحظہ ہو۔

پھوپھی اور خالہ کی اولاد کا جو علیحدہ علیحدہ حصہ نکلے گا وہ قرآنی آیت لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ کے تحت تقسیم ہو گا۔ یعنی دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے برابر۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب المیراث-صفحہ459

محدث فتویٰ

تبصرے