سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ

  • 21431
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2998

سوال

(91) جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد میں کسی قسم کا نزاع اور جھگڑا پیدا نہ ہو تو کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ اور اس کی تقسیم کا طریق کار کیا ہے؟ (محمد عبداللہ۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کی جائیداد کی تقسیم دو طرح پر ہے۔ (1) اپنی زندگی میں (2) مرنے کے بعد پہلی صورت میں آدمی اپنی اولاد کو جو جائیداد تقسیم کرتا ہے اسے وراثت نہیں بلکہ ھبہ کرنا یا عطیہ دینا کہا جاتا ہے اور دوسری صورت میں جو مال چھوڑا جاتا ہے اسے ورثہ یا ترکہ کہتے ہیں اس صورت میں جائیداد کی تقسیم کا اللہ تعالیٰ نے اصول و قاعدہ ذکر کر دیا ہے کہ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کی مثل حصہ ملے گا۔

جب کہ پہلی صورت میں اولاد کے درمیان برابری و مساوات ہو گی لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ والا قاعدہ جاری نہیں ہو گا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" إذا أعطى الوالد بعض ولده شيئاً لم يجز حتى يعدل بينهم ويعطي الآخر مثله " (بخاری، کتاب الهبة، باب الهبة للولد)

جب کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز عطا کرے تو یہ اس کے لئے اتنی دیر تک جائز نہیں جب تک وہ ساری اولاد کے درمیان عدل نہ کرے، اور دوسرے کو بھی اس کی مثل دے۔ اس کی دلیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پیش کی ہے۔

"عن عامر قال سمعت النعمان ابن بشير رضى الله عنهما وهو على المنبر يقول اعطانى أبى عطية فقالت عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال انى اعطيت ابنى من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتنى أن اشهدك يا رسول الله قال أعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين اولادكم قال فرجع فرد عطيته" (بخاری، کتاب الھبة، باب الاشهاد فی الهبة 2587)

"عامر شعبی نے کہا میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا۔ میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو عمرہ بنت رواحۃ نے کہا۔ میں اتنی دیر تک راضی نہیں یہاں تک کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا میں نے عمرہ بنت رواحہ میں سے اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دیا ہے اے اللہ کے رسول اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح عطیہ دیا ہے تو انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو تو وہ واپس لوٹے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔"

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" وقد تمسك به من أوجب التسوية في عطية الأولاد وبه صرح البخاري وهو قول طاوس والثوري وأحمد وإسحاق وقال به بعض المالكية " (فتح الباری 5/214)

"جن لوگوں نے اولاد کے درمیان عطیہ کی مساوات کو واجب قرار دیا ہے انہوں نے اس حدیث سے تمسک کیا ہے اور امام بخاری نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے اور یہی قول طاؤس، سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راھویہ اور بعض مالکیہ کا ہے۔"

عطیہ کی تقسیم کے متعلق ابن حجر ان محدثین کے موقف کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"لا فرق بين الذكر والأنثى، وظاهر الأمر بالتسوية يشهد لهم، واستأنسوا بحديث ابن عباس رفعه: "سووا بين أولادكم في العطية، فلو كنت مفضلاً أحداً لفضلت النساء"، اخرجه سعيد بن منصور والبيهقي من طريقه، وإسناده حسن" (فتح الباری 5/214)

"عطیہ کی تقسیم میں مذکر اور مؤنث کے درمیان فرق نہیں ہے اور حدیث میں جو مساوات کا حکم ہے اس کا ظاہر بھی اس بات پر شاہد ہے اور انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے بھی دلیل پکڑی ہے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عطیہ کے متعلق اپنی اولاد میں برابری کرو اگر میں کسی کو ترجیح دینے والا ہوتا تو عورتوں کو دیتا۔ اسے سعید بن منصور نے نکالا ہے اور امام بیہقی (2/177) نے اسی کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔

مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ اگر آدمی اپنی اولاد کے درمیان کسی نزاع یا جھگڑے کے خدشے کے پیش نظر یا ویسے ہی اپنی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہے تو اس پر اولاد کے درمیان عدل و انصاف لازم ہے جتنا حصہ لڑکے کو دے اتنا ہی لڑکی کو دے اسے شریعت کی اصطلاح میں ہبہ یا عطیہ کہتے ہیں۔

اگر اولاد کے درمیان عدل سے کام نہیں لے گا تو گناہ گار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنی کسی اولاد کو کچھ دیا ہے اور دوسروں کو نہیں دیا تو والد کو ایسا ھبہ یا عطیہ واپس لے لینا چاہیے اور اگر دنیا سے رخصت ہو گیا اور کچھ مال چھوڑ گیا تو اسے ترکہ اور وراثت کہا جاتا ہے اس کی تقسیم قانون وراثت کے تحت ہو گی۔ واللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب المیراث-صفحہ457

محدث فتویٰ

تبصرے