سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) مرتد اور اس کی سزا کا حکم

  • 21430
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3326

سوال

(90) مرتد اور اس کی سزا کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرتد کسے کہتے ہیں اس کی شرعی سزا کیا ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے ہماری صحیح رہنمائی فرمائیں؟ (ایک سائل۔ ٹاؤن شپ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرتد اسم فاعل ہے: " ارتد يرتد ارتدادا " جس کا لغوی معنی ہے پھرنے والا، پلٹنے والا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ ارتَدّوا عَلىٰ أَدبـٰرِهِم...﴿٢٥﴾... سورةمحمد

"بےشک وہ لوگ جو اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے۔"

اس طرح ایک مقام پر فرمایا:

﴿قالَ ذ‌ٰلِكَ ما كُنّا نَبغِ فَارتَدّا عَلىٰ ءاثارِهِما قَصَصًا ﴿٦٤﴾... سورة الكهف

(موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا) "یہی تھا جس کی تلاش میں ہم تھے چنانچہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس پلٹے۔"

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا مَن يَرتَدَّ مِنكُم عَن دينِهِ فَسَوفَ يَأتِى اللَّهُ بِقَومٍ يُحِبُّهُم وَيُحِبّونَهُ... ﴿٥٤﴾... سورة التوبة

"اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہو گی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہو گی۔"

ان تین آیات میں ارْتَدُّوا، فَارْتَدَّا اور يَرْتَدَّ ایک باب کے مختلف صیغے ہیں جس کا بنیادی مادہ "رد" ہے اور اس کا معنی ہے پھیرنا، واپس کرنا وغیرہ اور اصطلاحی طور پر اس کی تعریف یہ ہے "ایسا مسلمان جو اپنے اسلام کو اختیار کرنے والا ہو اس کا کسی قول، فعل، کفریہ عقیدہ یا ضرورت دینیہ سے کسی کے ساتھ شک کی بنیاد پر دین اسلام سے کٹ جانا مرتد ہوتا ہے" (عقوبۃ الاعدام ص 349)

بعض ائمہ نے اس کی تعریف یہ کی ہے:

" الراجع عن دين الاسلام الى الكفر " (القاموس الفقھی ص 147)

"دین اسلام سے کفر کی طرف پلٹنے والا۔"

گویا مرتد ایسا شخص ہے جو اسلام لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹ گیا۔ یہ ارتداد اس کے اندر خواہ عقیدے کی بنا پر پیدا ہو یا کسی قول، فعل اور شک و شبہ کی بنیاد پر۔ خواہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق و ٹھٹھہ سے کیونکہ ارتداد جیسے سنجیدگی سے ہوتا ہے، استہزاء و ہزل، ٹھٹھہ و مذاق سے بھی واقع ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ... ﴿٦٦﴾... سورة التوبة

"کہہ دیجئے! کیا اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمہاری ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقینا اپنے ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو۔"

مرتد آدمی پکا جہنمی ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلا يَزالونَ يُقـٰتِلونَكُم حَتّىٰ يَرُدّوكُم عَن دينِكُم إِنِ استَطـٰعوا وَمَن يَرتَدِد مِنكُم عَن دينِهِ فَيَمُت وَهُوَ كافِرٌ فَأُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢١٧﴾... سورةالبقرة

"یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑائی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں گے اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو گیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گیا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں غارت ہو جائیں گے، یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے۔"

مرتد کی دنیوی سزا قتل ہے:

پہلی دلیل:

عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(عن عكرمة: أن عليا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حرق قومًا، فبلغ ابن عباس فقال: لو كنت أنا لم أحرقهم؛ لأن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: «لا تعذبوا بعذاب الله»، ولقتلتهم كما قال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من بدل دينه فاقتلوه»)

(بخاری، کتاب الجھاد والسیر: 3017، وکتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم: باب حکم المرتد (6922) مسند حمیدی: 533، بیہقی 8/195 ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب المرتد عن دینہ 2535 مسند احمد 1/282، دارقطنی 3/113، ابوداؤد، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن ارتد (4351) نسائی، کتاب تحریم الدم 7/104 ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حکم المرتد (1458) شرح السنۃ (2560) مسند ابی یعلی 4/409،410 (2533)

"علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو آگ میں جلایا۔ یہ بات عبداللہ بن عباس کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا اگر میں ہوتا تو انہیں آگ میں نہ جلاتا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا "اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دو البتہ میں انہیں قتل کر دیتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنا دین بدل لیا، اسے قتل کر دو۔"

دوسری دلیل:

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لا يحلُّ دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والمفارق لدينه التارك للجماعة)

(بخاری، کتاب الدیات (6878) مسند احمد (1/382،428،444،465، 4/181) مسلم، کتاب القسامۃ، باب ما یباح بہ دم المسلم (1676) ابن حبان (4404) نسائی، کتاب القسامۃ، باب القود 8/13، مسند حمیدی (119) دارقطنی 3/82، بیہقی، کتاب الجنایات 8/19، مسند ابی یعلی 9/128 (5202)

"جو شخص لا الہ الا اللہ اور میرے رسول ہونے کی گواہی دے، اس کا خون حلال نہیں مگر تین کاموں میں سے کسی ایک کی بنا پر (1) نفس نفس کے بدلے (یعنی قاتل کو مقتول کے بدلے قصاص میں قتل کرنا) (2) شادی شدہ زانی (یعنی اسے رجم کر کے مار دیا جائے)۔ (3) اپنے دین کو چھوڑنے والا، جماعت کر ترک کرنے والا یعنی مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر کافروں کی جماعت میں شامل ہو جائے اور دین اسلام ترک کر بیٹھے مرتد ہو جائے"

یہ حدیث سیدہ عائشہ سے ابوداؤد، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن ارتد (4353) مسند احمد 6/58،181،205،214 نسائی، کتاب تحریم الدم 7/91، مسند طیالسی (1474) مسند ابی یعلی 8/136 (4676) میں بسند صحیح موجود ہے۔

تیسری دلیل:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" كُلُّ مُرْتَدٍّ عَنِ الإِسْلامِ ، مَقْتُولٌ إِذَا لَمْ يَرْجِعْ ذَكَرًا ، أَوْ أُنْثَى "

دارقطنی 3/93 (3159 طبع قدیم 3/119)

اسلام سے مرتد ہونے والا ہر شخص قتل کیا جائے گا جب وہ واپس نہ پلٹے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

اس اثر کی سند حسن ہے عبداللہ بن مسعود اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ المحلی لابن حزم 13/112۔ امام ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیرہ فرماتے ہیں:

" واتفقوا على ان المرتد عن الاسلام يجب عليه القتل "

الافصاح عن معانی الصحاح 1/187 اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے کہ اسلام سے مرتد ہونے والا واجب القتل ہے۔

امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

" وأجمع أهل العلم على وجوب قتل المرتد. وروي ذلك عن أبي بكر، وعمر وعثمان، وعلي، ومعاذ، وأبي موسى، وابن عباس، وخالد، وغيرهم، ولم ينكر ذلك، فكان إجماعا " (المغنی 8/123)

"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرتد واجب القتل ہے اور یہ بات ابوبکر، عمر، معاذ، ابو موسیٰ، عبداللہ بن عباس، خالد وغیرہم سے مروی ہے اس پر انکار نہیں کیا گیا پس اس پر اجماع ہو گیا۔"

یہی اجماع علامہ صنعانی، ابن دقیق العید اور کاسانی حنفی نے نقل کیا ہے۔

(ملاحظہ ہو سبل السلام 3/263، احکام الاحکام 3/84 بدائع الصناع 7/134 بحوالہ عقوبۃ الاعدام ص 368)

پس معلوم ہوا کہ قرآن و سنت اجماع صحابہ کرام اور اجماع اہل علم فقہاء و محدثین کی رو سے مرتد واجب القتل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے شیخ محمد بن سعد کی کتاب عقوبۃ الاعدام کا مطالعہ فرمائیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الحدود-صفحہ448

محدث فتویٰ

تبصرے