اگر کوئی کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کر لے تو قرآن و سنت کی روشنی اور فقہ حنفی میں اس کا کیا حکم ہے؟ تفصیل سے لکھیں۔ (عبداللہ محمد جمیل۔ سیالکوٹ)
کسی مسلمان آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کا مال، جائیداد، زمین وغیرہ غصب کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا خون، مال اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیا ہے۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا تھا:
(بخاری، کتاب العلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم رب مبلغ اوعی من سامع" 67 و کتاب الحج، باب الخطبۃ ایام منی: 1739'173'174، مسلم، کتاب القسامۃ، باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاموال: 31'30'29/1679، مسند احمد 5/40، بیہقی 5/166، 8/19، ارواء الغلیل: 5/278)
"بےشک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے یہ تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے جو تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں واقع ہوا ہے۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" المراد بهذا كله بيان توكيد غلظ تحريم الأموال والدماء والأعراض والتحذير من ذلك "(نووی شرح مسلم 11/141 مطبوعہ بیروت)
اس ساری گفتگو سے مراد مالوں، جانوں اور عزتوں کی حرمت کی شدت کے ساتھ تاکید ہے اور ان کی پامالی سے ڈرانا ہے۔ مسلمان کے مال کی حرمت کو مزید واضح کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
ابوداؤد، کتاب الادب، باب من یاخذ الشیئی علی المزاح (5003) ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء لا یحل لمسلم ان یروع مسلما۔" (2160)
"تم میں سے کوئی شخص بھی ہرگز اپنے بھائی کا سامان نہ لے نہ ہنسی و مذاق کرتے ہوئے اور نہ ہی سنجیدگی کے ساتھ اور جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی پکڑ لی اسے چاہئے کہ وہ واپس کر دے۔"
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابن حبان (موارد 1166) واللفظ لہ۔ مسند احمد 5/425 بیہقی 6/100 مجمع الزوائد 4/171 غایۃ المرام ص: 262'263)
"مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی اس کی رضامندی کے بغیر لے اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا مال مسلمان پر حرام کرنے میں جو شدت اختیار کی ہے اس وجہ سے آپ نے یہ فرمایا۔"
اس مفہوم کی کئی ایک روایات صحیحہ اور بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدت اور سختی کے ساتھ مسلمان کے مال کو مسلمان پر حرام قرار دیا ہے حتیٰ کہ ایک لکڑی بھی مسلمان کی اجازت کے بغیر لینے سے منع کر دیا ہے۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا آپ کے پاس دو آدمی زمین کے جھگڑے میں آئے۔ ایک نے کہا اے اللہ کے رسول! اس نے میری زمین پر زبردستی قبضہ (زمانہ جاہلیت میں) کر لیا تھا۔" (یہ امراء القیس بن عابس الکندی تھے اور ان کا مدمقابل ربیعہ بن عبدان تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تیرے گواہ کہاں ہیں؟ اس نے کہا میرے پاس گواہ نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر اس کی قسم ہو گی۔ امراء القیس نے کہا پھر تو قسم کھا کر یہ زمین لے جائے گا آپ نے فرمایا تیرے لئے اس کے سوا کچھ نہیں۔ جب وہ قسم کھانے کے لئے کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ظلم سے زمین چھین لی، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔"
(مسلم، کتاب الایمان 224/129، مسند احمد 4/317 شرح معانی الآثار 4/248)
سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
(بخاری، کتاب المظالم، باب اثم من ظلم شیئا من الارض 2452، مسلم، کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم و غصب الارض وغیرہ 1610)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
"جس نے زمین میں سے کچھ بھی ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنا دے گا"
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے درمیان جھگڑا تھا انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابو سلمہ! زمین کے جھگڑوں سے اجتناب کرو۔
اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایک بالشت برابر زمین میں سے ظلم کیا تو زمین کا وہ حصہ سات زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔"
(بخاری، کتاب المظالم 2453)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے زمین میں سے کچھ بھی ناحق لیا تو اسے قیامت والے دن اس کے بدلے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔"
یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(ابن حبان (موارد 1167) طبرانی کبیر 22/270'692، مسند احمد 4/173 مجمع الزوائد 4/170 معجم شیوخ ابی یعلی 111)
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جس بھی شخص نے زمین میں سے ایک بالشت برابر ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں تک دھنسا دے گا پھر قیامت والے دن وہ اسے لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک طوق پہنائے رکھے گا۔"
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"اللہ کے ہاں قیامت والے دن سب سے بڑی خیانت ایک ہاتھ زمین ہو گی جسے آدمی چوری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں سے طوق پہنائے گا۔"
ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بخاری کتاب المظالم کی مذکورہ احادیث کی شرح میں رقمطراز ہیں:
" وفى الحديث تحريم الظلم والغصب و تغليظ عقوبته و امكان غصب الأرض وأنه من كبائر قاله القرطبى ""اور حدیث میں ظلم اور غصب کی حرمت اور اس کی سزا کی سختی بیان ہوئی ہے اور زمین کے غصب کا ممکن ہونا اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ یہ بات امام قرطبی نے کہی ہے۔"
قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" يأثم الغاصب ويجب عليه رد ما أخذه ولا يحل مال امرى مسلم الا بطيبة من نفسه " (الدر البھیۃ ص: 88 مطبوعہ ریاض)"غصب کرنے والا گناہ گار ہے اور وہ چیز جو اس نے غصب کی ہے اسے واپس کرنا اس پر واجب ہے کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔"
نواب صدیق الحسن خان رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
" لأنه أكل مال غيره بالباطل أو استولى عليه عدوانا وقد قال الله تعالى: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ " (الروضة الندیه 2/149)"غاصب اس لئے گناہ گار ہے کہ اس نے اپنے غیر کا مال باطل طریقے سے کھایا ہے یا اس پر زیادتی کرتے ہوئے غالب ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔"
اس کے بعد نواب صدیق حسن صاحب نے کئی احادیث اس بارے ذکر کیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے اس میں کاشتکاری کر لے یا مکان تعمیر کر لے تو اسے صرف اس کے اخراجات ملیں گے اور کھیتی سے جو کچھ حاصل ہوا وہ زمین کے مالک کا ہو گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابوداؤد، کتاب البیوع، باب فی زرع الارض بغیر اذن صاحبھا 3303، ترمذی، کتاب الاحکام 1366، ابن ماجہ، کتاب الرھون 2366) مسند احمد 4/141، بیہقی 6/132'137، شرح مشکل الآثار 3/280، ارواء الغلیل 1519، 5/350'351)
"جس کسی نے دوسرے لوگوں کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر زراعت کی تو اسے اس زراعت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اسے صرف وہ اخراجات ملیں گے جو اس نے خرچ کئے۔"
بعض محدثین نے اس روایت میں کلام کیا ہے لیکن اس روایت کا ایک قوی شاھد موجود ہے۔ جو ابوداؤد، کتاب البیوع (3399) نسائی، کتاب الایمان (3898) وغیرہ میں بسند صحیح موجود ہے۔
امام ابن ابی حاتم رازی نے علل الحدیث 1/475'476 میں اسے ذکر کر کے کہا ہے کہ میرے باپ ابو حاتم رازی نے فرمایا:
" هذا يقوى حديث شريك عن أبى اسحاق ""یہ حدیث شریک از ابی اسحاق کی حدیث کو تقویت دیتی ہے۔"
علامہ البانی نے بھی اسے ارواء الغلیل اور صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
مولانا صفی الرحمان مبارکپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"کھیتی باڑی سے جو کچھ حاصل ہو وہ زمین کے مالک کا ہو گا بیج بونے والے کے لئے بجز اس بیج کے کچھ نہیں جو اس نے زمین میں بویا یا جو زمین میں صرف ہوئے اسے وہی ملیں گے۔"
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور مدینہ کے اکثر علماء کا یہی مسلک ہے اور یہی راجح مذہب ہے مگر اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ کھیتی تو غاصب کی ہے اور اس پر زمین کا کرایہ مگر اس قول پر کوئی دلیل ایسی نہیں جو اس حدیث کے مقابلہ میں پیش ہو سکے۔
(اتحاف الکرام اردو شرح بلوغ المرام 2/589 مطبوعہ دارالسلام)
مذکورہ بالا دلائل صحیحہ سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی زمین، اس کے مال و متاع پر ناجائز تصرف و قبضہ کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی زمین پر قبضہ کر کے کاشتکاری کرے یا مکان تعمیر کر لے تو اس سے زمین واپس لی جائے گی۔ اسے صرف اس کے اخراجات مل سکتے ہیں یہ موقف دلائل کے لحاظ سے قوی اور واضح معلوم ہوتا ہے۔ فقہ حنفی کا موقف یہ ہے کہ:
" ومن غصب أرضاً فغرس فيها أو بنى قيل له اقلع الغرس والبناء وردها الى مالكها فارغة فان كانت الأرض تنقص بقلع ذلك فللمالك ان يضمن له قيمة البناء والغرس مقلوعا "(قدوری، کتاب الغصب ص 149 مطبوعہ مکتبہ خیر کثیر کراچی)
"جو شخص زمین غصب کرے اور پھر اس نے اس میں پودے لگا دیے یا وہ تعمیر کر لے تو اس سے کہیں گے کہ یہ پودے اور تعمیر اکھاڑ لے اور زمین کے ملک کو خالی زمین لوٹا دے پس اگر زمین میں اکھاڑنے کی وجہ سے نقص پیدا ہوتا ہو تو مالک کے لئے درست ہے کہ وہ اکھڑے ہوئے پودوں اور تعمیر کی قیمت غصب کرنے والے کو دے دے۔"
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب